سوات: صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ایک 20 سالہ نوجوان کو 'غیرت کے نام' پر پتھر مار کر قتل جبکہ شادی شدہ خاتون کو زخمی کردیا گیا۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) صادق اکبر نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ واقعے کی اطلاع ملنے پر جب پولیس جائے وقوع پر پہنچی تو وہاں نوجوان اور خاتون کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا۔

ڈی ایس پی کے مطابق نوجوان جائے وقوع پر ہی ہلاک ہوگیا تھا جبکہ زخمی خاتون کے گلے میں پھندا لگا ہوا تھا۔

صادق اکبر کے مطابق خاتون کے والد نے نوجوان کو قتل اور اپنی بیٹی کو زخمی کرنے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ یہ غیرت کا معاملہ تھا۔

مزید پڑھیں:غیرت کے نام پر قتل: 2 بھائیوں کو سزائے موت

ڈی ایس پی نے مزید بتایا کہ خاتون کے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ یہ دونوں 'قابل اعتراض حالت' میں پائے گئے تھے۔

پولیس نے خاتون کے والد اور اس چچا کو گرفتار کرلیا،جن کے گھر پر یہ واقعہ پیش آیا، جبکہ زخمی خاتون کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

ڈی ایس پی کے مطابق پولیس نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کرکے تفتیش کا آغاز کردیا۔

پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر سیکڑوں افراد کی جانیں لے لی جاتی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں 500 مرد و خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:'غیرت کے نام پر قتل غیر اسلامی اور گناہ کبیرہ '

سوات میں بھی غیرت کے نام پر قتل اور تشدد کے واقعات بہت عام ہیں، اس سے قبل 3 اپریل 2009 کو ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں طالبان کے ایک گروہ کی جانب سے 17 سالہ لڑکی چاند بی بی کو کوڑے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

2 منٹ دورانیے پر مشتمل موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں سیاہ برقعے میں ملوث ایک لڑکی کو 34 کوڑے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ویڈیو سامنے آنے پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور کیس کی سماعت کے بعد یہ ثابت ہوا کہ مذکورہ ویڈیو جعلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں