اسلام آباد: گلگت بلتستان میں ساڑھے چار ہزار میٹر بلندی پر واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں بیافو گلیشیئر پر سائیکلنگ کرنے والی دنیا کی پہلی پاکستانی خاتون ثمر خان نے مستقبل میں اولمپکس میں حصہ لے کر ملک کے لیے ٹائٹل جیتنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ثمر خان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ دور دراز علاقوں میں اتنے باصلاحت لوگ ہیں، لیکن وہاں نہ تو کوئی اسپورٹس کملیکس اور نہ ہی تربیت دینے کا کوئی ایسا نظام موجود ہے جس سے ان افراد کو آگے لایا جاسکے'۔

ثمر خان—۔
ثمر خان—۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھنے والی پاکستانی خاتون سائیکلسٹ ثمر خان نے اپنے سفر کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی تھیں کہ پاکستان میں لوگوں کے اندر سے سیکیورٹی کے حوالے سے خوف کو ختم کیا جائے، لہذا انھوں نے گلیشیئر پر جانے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ بیافو گلیشیئر کا انتخاب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایک تو سفر کم تھا اور دوسرا وہاں اس سے پہلے کوئی گیا بھی نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سفر کے دوران جو سب سے مشکل مرحلہ تھا وہ گلیشیئر پر جانا اور وہاں سے واپس آنا تھا، کیونکہ یہ ایک ایسا پہاڑی سلسلہ تھا کہ جہاں ہر وقت لینڈ سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہے۔

مستقبل میں سندھ کے سفر کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ کراچی تک سائیکل کا سفر کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں، لیکن ساتھ ہی ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ اس سفر میں زیادہ سے زیادہ لوگ حصہ لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سفر میں ہر کوئی ان کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے، کیونکہ اس میں عمر یا صنف کی پابندی نہیں ہوگی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک خاتون اور خیبرپختونخوا سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ثمر خان کا کہنا تھا کہ 'جب مجھے اُن علاقوں سے یہ پیغامات آتے ہیں کہ آپ نے ہمارے اندر ایک جوش پیدا کیا کہ ہم بھی اپنے والدین سے بات کرسکیں تو میں ان میسجز کو پڑھ کر بہت فخر محسوس کرتی ہوں'۔

ثمر خان کا کہنا تھا کہ 'اب سوات اور دیر جیسے علاقوں کی لڑکیاں اور خواتین کسی خوف کے بغیر یہ کہہ سکتی ہیں کہ انہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اسپورٹس میں آنا ہے اور وہ مجھے کہتی ہیں کہ میں وہاں پر ایک سائیکلنگ ریلی کا انعقاد کروں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ دیر ایک قدامت پسند علاقہ ہے، لیکن وہاں کے لوگ اور خاص طور پر نوجوان نسل تبدیلی چاہتی ہے۔

خود اپنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستانی سائیکلسٹ خاتون نے کہا کہ جب میں نے اسلام آباد سے یہ سفر شروع کیا تھا تو مجھے ڈر تھا کہ میرے گھر والے میرے بارے میں کیا سوچیں گے، لیکن انھوں نے بہت گرم جوشی سے میری تعریف کی، کیونکہ وہ بھی اس علاقے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں بہت ہی پسماندہ علاقوں سے میسجز آتے ہیں اور وہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کی یونیورسٹی میں آکر کر اس طرح کے اپسورٹس ایونٹس کرواسکوں۔

خیال رہے کہ ثمر خان نے گذشتہ ماہ 24 جولائی کو اسلام آباد سے اسکردو کا سفر شروع کیا تھا اور 15 دن میں ایک ہزار کلو میٹر سے زائد کا سفر طے کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی خاتون کا گلیشیئر پر سائیکلنگ کا عالمی ریکارڈ

انہوں نے اسکولی کے نام سے مشہور شگر کے علاقے میں تین دن تک ٹریکنگ کی اور بیافو گلیشیئر پہنچیں۔

اس سفر میں ثمر نے گلگت بلتستان میں ساڑھے چار ہزار میٹر بلندی پر واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں بیافو گلیشیئر پر سائیکلنگ کی، وہ دنیا کی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ عزاز حاصل ہوا ہے۔

بیافو گلیشیئر 67 کلو میٹر طویل ہے اور اس کا شمار خطے کے بڑے گلیشئرز میں کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد کی اردو یونیورسٹی سے فزکس میں ماسٹرز کرنے والی ثمر ایک ایتھلیٹ ہیں اور خیبرپختونخوا کے علاقے لوئر دیر سے تعلق رکھتی ہیں۔

انہیں خنجراب کے دورے کے دوران چار ہزار 693 میٹر سائیکلنگ کا قومی ریکارڈ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ثمر قومی یوتھ اسمبلی کی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں