Dawnnews Television Logo
Pakistani local journalists react over the body of a news cameraman after a bomb explosion at a government hospital premises in Quetta on August 8, 2016.


At least 35 people were killed and dozens more wounded after a blast at a major hospital in the Pakistani city of Quetta, an AFP reporter and officials said, with fears the toll could rise. / AFP PHOTO / BANARAS KHAN — AFP or licensors

'ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں'

دھماکے کے وقت وہ ہسپتال میں واحد خاتون میڈیکل افسر تھیں، انہیں دلیرانہ خدمات پر پاکستان ہلالِ احمر سوسائٹی کا رکن گیا۔
شائع 26 اگست 2016 01:11pm

سول ہسپتال کوئٹہ کی ڈاکٹر شہلا کاکڑ اس خوفناک دن کو یاد کرتی ہیں۔

دھماکے کے وقت وہ ہسپتال میں موجود واحد خاتون میڈیکل افسر تھیں، اور انہیں ان کی دلیرانہ خدمات کی وجہ سے پاکستان ہلالِ احمر سوسائٹی کی اعزازی رکنیت سے نوازا گیا ہے۔


جب گرد و غبار بیٹھا تو نظر آنے والے رنگوں میں صرف سیاہ، سفید اور سرخ رنگ ہی تھے: کالے سوٹ، اور سرخ رنگ میں بدلتی سفید شرٹیں۔

ہسپتال کے احاطے میں وکلاء کی ایک قطار بے جان پڑی تھی؛ ہر جگہ لاشیں تھیں۔ جو زندہ تھے وہ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔

دھماکے کے چند لمحوں بعد ہی ہسپتال میں افراتفری مچ گئی۔ میں فوراً ایمرجنسی وارڈ کی جانب بھاگی جہاں دھماکہ ہوا تھا۔ دھوئیں اور جلتے گوشت کی بو فضاء میں موجود تھی۔ فرش پر جگہ جگہ انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے۔

میں نے بڑھتے ہوئے رش میں سے اپنا راستہ بنایا، میرے کان اب بھی دھماکے کی وجہ سے بج رہے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔

کچھ سیکنڈ پہلے ہی تو میں گائینی وارڈ میں ایک مریض کے علاج کے لیے آپریشن تھیٹر تیار کر رہی تھی، اور پلک جھپکتے ہی سب کچھ تہس نہس ہوگیا تھا۔ شیشوں کی کرچیاں ہر جگہ بکھری پڑی تھیں، فرش پر، بیڈز پر، کاؤنٹرز پر۔

ایمرجنسی وارڈ میں کئی لوگ زمین پر پڑے کراہ رہے تھے۔ بچ جانے والے وکلاء اپنی زندگیوں کی جنگ لڑ رہے تھے، جبکہ ان کے کئی ساتھی اور دوست پہلے ہی جان کی بازی ہار چکے تھے۔ جب میں دھماکے کی جگہ پر مزید آگے گئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سانحہ کس قدر بڑا تھا۔

اسٹاف میں سے زیادہ تر لوگ اپنی جان کے خوف سے بھاگ نکلے تھے۔ میں نے زخمیوں کی ٹائیاں اتار کر انہیں پٹی کی طرح باندھنا شروع کیا تاکہ بہتے خون کو روکا جا سکے۔ سر، سینے، ٹانگیں، بازو، سبھی سے تو خون بہہ رہا تھا، ایک وکیل کی ایک ٹائی سے کتنے اعضاء کی پٹی کی جائے؟

میرے ہاتھ جو بھی کپڑا آیا، کوٹ، شرٹ، زخمیوں کے لواحقین کے کپڑے، میں نے زخموں پر باندھنے شروع کیے تاکہ خون بہنے سے روکا جا سکے اور ان کی جانیں بچائی جا سکیں۔

جب مجھے سانحے کی شدت اور زخمیوں کی تعداد کا اندازہ ہوا تو میں سمجھ گئی کہ ایمرجنسی وارڈ کا بچ جانے والا حصہ زخمیوں کی امداد کے لیے کافی نہیں تھا۔

ہہم نے زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کرنا شروع کیا۔ اسٹریچرز یا ایمبولینسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے زخمیوں کو ہم نے ان لوگوں کی گاڑیوں میں منتقل کیا جو کہ دھماکے کے وقت قریب ہی موجود تھے۔

میں نے وہ کیا جو کہ کسی بھی ایسے سانحے میں کسی ڈاکٹر یا نرس کو کرنا چاہیے، یعنی انہیں تسلی دی۔ میں ان کی پٹی کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ انہیں دلاسا دیتی تھی کہ "موت سے خوفزدہ نہ ہوں، ہم سب کی موت کا وقت طے ہے، یہ ایک نہ ایک دن ضرور آئے گی۔"

ہیڈر فوٹو: اے ایف پی