اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اپنے فیصلے سے یو ٹرین لیتے ہوئے فوج کے نامزد کردہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کو سیکریٹری دفاع مقرر کر دیا، قبل ازیں ان کی تقرری پر حکومت کی جانب سے اعتراض کیا گیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے جس کے بعد سیکریٹری دفاع کی پوسٹ پر تقرری کے لیے حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنازع کا خاتمہ ہوا۔

نئے ڈیفنس سیکریٹری نے لیفٹیننٹ جنرل عالم خٹک کی جگہ عہدہ سنبھالا ہے، جن کا دو سالہ کنٹریکٹ 5 اگست کو مکمل ہوا۔

لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ رواں برس کے آغاز میں فوج سے ریٹائر ہوئے، جن کی آخری تقرری ایجوٹنٹ جنرل کے طور پر ہوئی تھی۔

لیفٹننٹ جنرل عالم خٹک کا کنٹریکٹ مکمل ہونے سے طویل عرصہ قبل ہی فوج نے حکومت کو لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنے کی سفارش کی تھی، تاہم حکومت نے فوج کی تجویز کو مسترد کرکے کسی اور افسر کا نام تجویز کرنے کے لیے کہا تھا۔

وزیراعظم ہاؤس کے ذرائع نے بتایا کہ حکومت کو لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کی تقرری پر کچھ اعتراضات تھے۔

فوج کے اندرونی ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے وفاقی حکومت کے اعتراضات کو مسترد کرکے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کی ہی تقرری پر زور دیا تھا۔

اس کے بعد حکومت نے مختلف آپشنز پر غور شروع کر دیا تھا، میجر جنرل عابد نظیر کو نومبر تک قائم مقام سیکریٹری دفاع بنانے پر بھی غور کیا گیا کیونکہ نومبر میں فوج میں اعلیٰ سطح پر تبدیلی ہوگی، جبکہ کسی سویلین بیوروکریٹ کو اختیارات دینے کا معاملہ بھی ایک آپشن کے طور پر سامنے رکھا گیا تھا۔

تاہم وزیر اعظم نواز شریف کے مشیروں نے ان کو مشورہ دیا کہ فوج کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا نہ کیا جائے اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کو ہی ڈیفنس سیکریٹری لگایا جائے۔

لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کی تقرری کے معاملے پر اتفاق ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب حکومت اور فوج میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کے حوالے سے تناؤ سامنے آچکا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی پر فوج کی جانب سے تنقید پر وزیراعظم نواز شریف نے ایک نگران کمیٹی بنائی، جس کا سربراہ قومی سلامتی کے مشیر لیفٹننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کو بنایا گیا، جبکہ اس بات کی بھی منظوری دی گئی کہ فرنٹیئر کور (ایف سی) کے نئے ونگز بنائے جائیں گے اور انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

سیکریٹری دفاع کی تعیناتی سے ایک روز قبل ہی حکومت نے ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل مزمل حسین کو واپڈا (واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

دوسری جانب پرنسپل انفارمیشن افسر راؤ تحسین نے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الحسن شاہ کے نام پر اعتراضات کے حوالے سے رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں اور اندازوں کی بنیاد پر بنائی گئی رپورٹس قابل تردید ہیں۔

سیکریٹری دفاع کا عہدہ وزارت دفاع میں اعلیٰ ترین بیوروکریٹک پوسٹ ہے، لیکن اس کا کردار بہت ہی کم ہے کیونکہ اصل اختیارات جی ایچ کیو کے پاس ہی ہیں۔

بہرحال اس عہدے کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے، کیونکہ یہ فوج اور حکومت میں توازن برقرار رکھتا ہے اور آنے والے دنوں میں فوج میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی تبدیلی میں اس کا کردار بھی ہوگا۔

حکومت عام طور پر آرمی چیف کی تجویز پر ہی سیکریٹری دفاع کی تقرری کرتی ہے جبکہ اس کے لیے کوئی تحریری تجویز ارسال کرنے کی روایت نہیں ہے۔

اس حوالے سے دیگر مثالیں بھی موجود ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں جنوری 2012 میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم لودھی کو اس وقت عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جب میمو گیٹ اسکینڈل اپنے عروج پر تھا، ندیم لودھی کی جگہ ایک سویلین بیوروکریٹ نرگس سیٹھی کو سیکریٹری دفاع کا اضافی چارج دیا گیا، وہ 7 ماہ تک اس عہدے پر کام کرتی رہیں، بعد ازاں جولائی 2012 میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کو سیکریٹری دفاع مقرر کردیا گیا تھا۔

یہ خبر 26 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں