اسلام آباد: حکومت پاکستان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کے خلاف تشدد پر اکسانے کے حوالے سے شواہد آئندہ ہفتے برطانوی پولیس کے حوالے کرے گی۔

ایک عہدے دار نے بتایا کہ ہم متحدہ قائد کے خلاف ثبوت اکھٹے کررہے ہیں اور جلد ان تفصیلات کو برطانوی حکام کے حوالے کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم خود کو اپنے قائد سے الگے کرے،حکومتی تنبیہہ

انہوں نے کہا کہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد کی ضرور ہے کہ الطاف حسین نے تقاریر نشر نہ کرنے والے میڈیا ہاؤسز پر حملے کی ہدایات جاری کیں۔

عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود نہیں ہے اور اس معاہدے کی راہ میں پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں میڈیا ہاؤسز پر حملے کے فوراً بعد وزارت داخلہ کی جانب سے یہ معاملہ برطانوی سیکریٹری داخلہ کے ساتھ اٹھایا گیا اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بھی برطانوی پولیس کے ساتھ رابطے میں تھے۔

عہدے دار نے بتایا کہ برطانوی حکام اس معاملے میں کافی تعاون کررہے ہیں اور برطانوی وزیر اعظم ہائوس سے میڈیا پر حملے کی مذمت بھی جاری کی گئی۔

مزید پڑھیں:اے آر وائی کے دفتر پر حملہ، فائرنگ سے ایک شخص ہلاک

انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ لندن پولیس کس طرح اس معاملے پر کارروائی کرتی ہے اور پھر ہم اس مقدمے کی مزید پیروی کیلئے اپنے قانونی ماہرین برطانیہ بھیجنے پر غور کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین برطانوی شہری ہیں اور پاکستان کا برطانیہ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے۔

الطاف حسین کی پاکستانی شہریت کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فی الحال الطاف حسین برطانوی شہری ہیں تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا ان کی پاکستانی شہریت منسوخ کردی گئی ہے یا نہیں۔

عہدے دار نے بتایا کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کے حوالے سے قانونی پہلوؤں کا خاموشی سے جائزہ لیا جائے گا اور ایم کیو ایم پر پابندی کا مقدمہ بننے اور اس حوالے سے عدالتی حکم کے بعد ہی پابندی عائد کی جاسکے گی۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے، فاروق ستار

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کی جانب سے پارٹی کی لندن کی قیادت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان ممکنہ طور پر غلطہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت کی جانب سے الطاف حسین کو عملی طور پر سائیڈ لائن کیا گیا ہو۔

دسمبر 1992 میں بھی الطاف حسین نے اس وقت کے ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق کے حق میں سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا تاہم چند ماہ بعد وہ پھر واپس آگئے تھے۔

بعد ازاں یکم مئی 1993 کو عظیم احمد طارق کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا اور ان کے قتل کا معمہ اب تک حل نہ ہوسکا۔

تقریباً تین دہائیوں سے برطانیہ میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف قتل سمیت دیگر سنگین جرائم پر پہلے ہی کئی مقدمات درج ہیں تاہم پارٹی پر ان کا کنڑول پہلے کی طرح ہی برقرار ہے۔

مزید پڑھیں:الطاف حسین کاایک اورپاکستان مخالف بیان،متحدہ کاپھر اعلان لاتعلقی

لیکن 22 اگست 2016 کو قائد متحدہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اس نے الطاف حسین کے خلاف بغاوت کو ہوا دی اور پارٹی کے کئی رہنماؤں نے ان کے اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔

الطاف حسین کے بیانات کی ان سیاسی جماعتوں نے بھی مخالفت کی جو اب تک ایم کیو ایم کی حمایت کررہی تھی۔

واضح رہے کہ الطاف حسین لندن میں اپنی رہائش گاہ اور انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے روزانہ کی بنیاد پر پارٹی کے معاملات چلاتے رہے ہیں تاہم ایم کیو ایم میں وہ کوئی عہدے نہیں رکھتے، ایم کیو ایم الیکشن کمیشن آف پاکستان میں فاروق ستار کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔

فاروق ستار نے متنازع تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر کی مذمت یا اس پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پارٹی پاکستان میں رجسٹرڈ ہے لہٰذا اس کے معاملات بھی یہیں سے چلائے جانے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور انہیں صحت کے مسائل بھی درپیش ہیں اور پارٹی کی باگ ڈور دوبارہ سنبھالنے سے قبل اس مسئلے کا حل ہونا ضروری ہے۔

الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں ایم کیو ایم کے غیر قانونی دفاتر کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور اب تک کراچی میں 195 میں سے 10 دفاتر مسمار کیے جاچکے ہیں۔

یہ خبر 27 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں