ڈھاکا: بنگلہ دیش پولیس نے دارالحکومت ڈھاکا کے باہر دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مار کے گذشتہ ماہ ریسٹورنٹ پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت 3 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ یکم جولائی کو بنگلہ دیش کے سفارتی علاقے میں واقع مشہور ریسٹورنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 20 یرغمالی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے 6 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش ریسٹورنٹ حملہ:20 یرغمالی، 6دہشت گرد ہلاک

خبر رساں ادارے اے ایف پی کو سینئر پولیس افسر سنوار حسین نے بتایا، 'یہاں 3 لاشیں موجود ہیں'۔

انھوں نے کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے بنگلہ دیشی نژاد کینیڈین شہری کے حوالے سے بتایا، 'تمیم چوہدری مرچکا ہے، وہ ریسٹورنٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ اور جمعیت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) کا سربراہ تھا'۔

سنوار حسین نے بتایا، 'اس سے قبل پولیس نے ڈھاکا کے 25 کلومیٹر جنوب میں واقع شہر نارایان گنج کے علاقے پائیک پارا میں کئی گھنٹوں تک دہشت گردوں سے مقابلہ کیا'۔

بنگلہ دیش کی نیشنل پولیس کے سربراہ اے کے ایم شاہد الحق نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'جب پولیس نے کارروائی کا آغاز کیا تو 'ہمیں 99 فیصد یقین' تھا کہ تمیم چوہدری یہاں چھپا ہوا ہے'۔

2013 میں کینیڈا سے واپس آنے والا تمیم چوہدری جے ایم بی کا سربراہ تھا، جس کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ڈھاکا کے ریسٹورنٹ میں حملے میں ملوث تھا۔

یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش ریسٹورنٹ حملہ: ’نشانہ غیر ملکی تھے‘

اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورس نے ریسٹورنٹ پر حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں 4 خواتین کو گرفتار کیا تھا۔

جبکہ ایک برطانوی شہری حسنات کریم اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے طالب علم تحمید خان کو بھی حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ڈھاکا میں ریسٹورنٹ پر حملے میں دہشت گردوں نے یرغمال بنائے گئے 20 غیر ملکیوں کو تیز دھار آلے کی مدد سے ہلاک کیا تھا۔

مسلح دہشت گردوں کے حملے کے بعد بنگلہ دیش کی ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے کیفے کا محاصرہ کرکے جوابی کارروائی میں یرغمال بنائے گئے 13 افراد کو بازیاب کرایا تھا جن میں ایک جاپانی اور 2 سری لنکن شہری شامل تھے۔

ریسٹورنٹ کے شریک مالک علی ارسلان کا کہنا تھا کہ ان کے عملے نے انہیں بتایا کہ حملہ آوروں نے حملے سے قبل اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور وہ ’ہولی آرٹیسَن بیکری‘ اور ’او کچن ریسٹورنٹ‘ میں تقسیم ہوگئے۔

یہ ریسٹورنٹ پُرخطر شہر میں ایک پرسکون جگہ مانی جاتی تھی۔

حملے میں بچ جانے والے ریسٹورنٹ کے ایک ملازم نے مقامی چینلز کو بتایا کہ حملے کے وقت ریسٹورنٹ میں تقریباً 20 گاہک موجود تھے، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے، جبکہ حملے کے 15 سے 20 افراد بھی اس وقت ریسٹورنٹ میں کام کر رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں