متحدہ قومی موومنٹ کا پولیس کی حراست میں موجود کارکن کراچی کے سول ہسپتال میں دوران علاج چل بسا۔

فائر بریگیڈ کے ملازم محمود خان کی ہلاکت پر ایم کیو ایم نے الزام عائد کیا ہے کہ 'اسے ملیر پولیس نے ہلاک کیا ہے'۔

سول ہسپتال کے میڈیکولیگل آفیسر ڈاکٹر مبارک پٹھان کے مطابق محمود خان کو سینٹرل جیل سے علاج کے لیے ' چار، پانچ دن قبل' ہسپتال لایا گیا تھا۔

اسے ایک میڈیکل وارڈ میں داخل کیا گیا جہاں اتوار کو اس کا انتقال ہوگیا۔

میڈیکولیگل آفیسر کے متوفی کی لاش کو والدین ڈاکٹروں کو پوسٹ مارٹم کی اجازت دیئے بغیر لے کر چلے گئے۔

ڈاکٹر مبارک پٹھان کا کہنا تھا کہ متوفی کے خاندان نے متعلقہ مجسٹریٹ کو تحریری طور پر مطلع کیا تھا کہ وہ پوسٹم مارٹم نہیں کروانا چاہتے۔

ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے دعویٰ کیا " آج ایم کیو ایم کے ایک سنیئر کارکن کا قتل کردیا گیا"۔

ان کا مزید کہنا تھا " آج ہم احتجاج نہیں کررہے مگر وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ پولیس سے اپیل کرتے ہیں کہ دہشت پھیلانے والے کچھ پولیس افسران کو کنٹرول کیا جائے"۔

ان کے بقول " یہ ہمارا قانونی حق ہے کہ اپنے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز بلند کریں"۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ہلاکتیں ایک برادری کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہے " جن پولیس افسران کی حراست میں ہمارے کارکن ہیں، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پولیس ایک عوامی ادارہ ہے اور آپ پولیس سے غداری کررہے ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ ملیر پولیس نے گیارہ اگست کو محمود خان کو بارہ مئی کے کیس میں مبینہ طور ملوث ہونے کے الزام گرفتار کیا تھا۔

ادھر ایس ایس ملیر راﺅ انوار احمد نے ڈان کو بتایا کہ محمود خان کو ائیرپورٹ پولیس نے بارہ مئی کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر حاست میں لیا تھا اور اسے چھ دن قبل جیل بھیج دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم ذیابیطس کا مریض تھا اور پیر کے زخم کی پیچیدگیوں کا شکار ہوا تھا۔

ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ محمود خان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا گیا جہاں دو بار پولیس ریمانڈ دیا گیا جبکہ بعد میں اسے عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا گیا۔

ان کے بقول اتنے دنوں تک پولیس کی حراست میں رہنے کے باوجود ایم کیو ایم نے ملزم پر تشدد کے الزامات نہیں لگائے تھے۔ پولیس افسر نے ملزم پر کسی بھی قسم کے تشدد کے الزام کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ محمود خان ایک پولیس کانسٹیبل تھا اور 1992 میں برطرف کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ فائر بریگیڈ میں بھرتی ہوگیا، تاہم ایم کیو ایم کے اقتدر میں آنے کے بعد 2005 میں وہ پولیس کانسٹیبل کی حیثیت سے دوبارہ بحال ہوگیا اور اس کے بعد سے عزیز آباد پولیس اسٹیشن سے تنخواہ لے رہا تھا۔

راﺅ انوار نے الزام عائد کیا کہ محمود خان کو ماضی میں بھی دو قتل کیسز میں حراست میں لیا گیا جبکہ وہ بارہ مئی کے کیس سے ہٹ کر بھی دیگر فوجداری مقدمات میں ملوث تھا۔

اس سے قبل ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد بھی حراست کے دوران ہلاک ہوگئے تھے اور ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ان کے جسم کے 35 سے 40 فیصد حصے پر زخموں کے نشانات موجود تھے۔

ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ آفتاب کے جسم کے مختلف حصوں پر سیاہ اور سرخی مائل زخم پائے گئے۔

مجسٹریٹ کلیم اللہ کلہوڑ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم جناح ہسپتال میں کیا گیا جبکہ موت کی وجہ کو کیمیکل رپورٹ مکمل ہونے تک محفوظ کرلیا گیا ہے۔

یہ پڑھیں : آفتاب احمد پر دوران حراست تشدد کی تصدیق

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ آفتاب احمد کے الٹے پاؤں کا ناخن بھی آدھا اکھڑا ہوا تھاجبکہ جسم کے مختلف حصوں پر خراشیں اور نیل کے نشانات پائے گئے.

اس موقع پر ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ آفتاب احمد رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوئے جبکہ رینجرز کا موقف تھا کہ انہیں سینے میں تکلیف کے بعد ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہ دوران علاج چل بسے۔

بعد ازاں سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بلال اکبر نے ایم کیو ایم کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے موت کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی تھی۔

مزید پڑھیں : ڈی جی رینجرز کا متحدہ کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف

رینجرز کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی رینجرز کے سیکٹر کمانڈر ہوں گے۔

تحقیقاتی کمیٹی کے سیکٹر کمانڈر کو جلد از جلد تحقیقات مکمل کرکے حقائق سامنے لانے کی ہدایت کی گئی۔

رینجرز کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں