ایک گمشدہ شہر کا منظرنامہ

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
کراچی کا میٹروپول ہوٹل جو کسی زمانے میں شہر کی پہچان تھا، آج اپنے شاندار ماضی کی صرف ایک پرچھائی بن چکا ہے۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز
کراچی کا میٹروپول ہوٹل جو کسی زمانے میں شہر کی پہچان تھا، آج اپنے شاندار ماضی کی صرف ایک پرچھائی بن چکا ہے۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز

کراچی وہ شہر تھا جہاں کی فضا میں راحت بھرا سکون ہوا کرتا تھا۔ سڑکوں کے کنارے لگے درخت آنے جانے والوں کو ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرتے تھے۔ گلیاں مکینوں کے قہقہوں سے گونجا کرتی تھیں۔ شہر کے سارے راستے خوشی کے سمندر میں جا اترتے تھے۔

بادِ صبا اور ماہِ شب کے پُرکیف لمحوں کا ہجوم آنکھوں پر رُکا رہتا تھا۔ یہ ایک جمالیاتی جزیرہ تھا جس کو شہر والے آباد رکھتے تھے۔ یہاں خواب دیکھنے والے لوگ بستے تھے جن کے دلوں میں امن، محبت اور اخوت کا درس پنہاں تھا، اور جو ہمہ وقت باہر سے آنے والوں کے استقبال کو تیار رہتے تھے۔

چائے کی چسکیوں پر دانشور اپنے ہم فکر ذہنوں پر خیالات نچھاور کرتے تھے۔ مہمان خانوں میں پکوان کی خوشبوئیں رشتوں کے مضبوط بندھن کا پتہ دیتی تھی۔ یہاں وہ لوگ بستے تھے، جن کے ذہن فرقہ ورانہ اور لسانی تعصبات سے پاک تھے۔ یہ شہر حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر تھا، جب تک اس کی ڈور سیاسی مداریوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔ شہر کا غالب طبقہ اہلِ علم کا تھا، جن کے خیالات کی روشنی سے صرف ذہن و دل ہی نہیں، روح بھی منور ہو جایا کرتی تھی۔

وقت نے لاکھ ستم ڈھائے ہوں، مگر جمالیات اور ادب کے ماننے والے اپنے ہونے کا جواز بنائے رکھتے ہیں۔ ماضی سے حال تک ایسی علامتیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں، جن کو سمیٹنے سے ایک احساس شدت سے پیدا ہوا۔ یہ وہ شہر نہیں، جس سے ہم واقف تھے، یہ وہ شہر ہے، جس سے ہم لاعلم تھے۔ شائستہ لہجے، تہذیبی رویے، احترامِ آدمیت اس کا حوالہ تھے۔ اس شہر کی روشنیوں کو سیاسی تاریکیوں نے نگل لیا، پھر بھی اہلِ علم نے اس ماحول میں سنگت اور میل ملاپ کی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ تصور کے ان ٹکڑوں کو جوڑا جائے تو شہر کی پرانی تصویر پھر سے بننے لگتی ہے۔

تصور کیجیے، ایرانی کیفے عوام سے بھرے ہوئے ہیں، مختلف موضوعات پر مکالمہ ہو رہا ہے، شہر بھر کے دانشور، ادیب، فنکار ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کو اکٹھے ہوئے ہیں۔ چائے اور کافی کا دورچل رہا ہے۔ ادبی جرائد سے لے کر فلموں کی کہانیوں تک سب کچھ زیرِ بحث ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر خریداروں کا رش ہے۔ سینما میں فلموں کے شو ہاؤس فل ہیں، آرٹ گیلریوں میں ایک سے بڑھ کر ایک فن پارہ نمائش کے لیے آویزاں ہے، اس کی چاہ میں دیوانے ہوجانے والے بھی دیکھنے کو آئے ہیں۔ لائبریریوں میں طلباء پڑھائی میں مصروف ہیں۔ شام ڈھلے بچے پارکوں میں اپنے خاندان کے ہمراہ کھیل کود میں مصروف ہیں۔ رات کی میٹھی چاندنی سے ہوٹلوں کی راہداریاں روشن ہیں۔ ثقافتی سرگرمیوں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔

جوش ملیح آبادی، زہرہ نگاہ، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور دیگر کراچی میں ایک ادبی محفل کے دوران۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز۔
جوش ملیح آبادی، زہرہ نگاہ، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور دیگر کراچی میں ایک ادبی محفل کے دوران۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز۔

اسی شہر میں علامہ سیماب اکبرآبادی، رئیس امروہوی، آرزو لکھنوی جیسے شعراء اپنے لفظوں پر خیال کی پرت چڑھاتے تھے۔ شاہد احمد دہلوی، صہبا لکھنوی، علامہ نیاز فتح پوری اورمولوی عبدالحق زبانِ شیریں کے فروغ میں پیش پیش تھے، اردو زبان کی نئی جہتوں کو دریافت کر رہے تھے۔ حسن عسکری، پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر محمود حسین جیسی شخصیات علم کو تربیت سے جوڑ کر بیان کر رہی تھیں۔

استاد بندو خان کی سارنگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیوز میں فنکاروں کی آمد سے رونقیں لگی ہوئی تھیں۔ فلم کا منظرنامہ بھی متحرک تھا۔ خواجہ معین الدین تھیٹر کے ناٹک تخلیق کر رہے تھے، بشیر مرزا، گل جی، آذر ذوبی رنگوں سے خیالوں کی مچان بنائے بیٹھے تھے۔

زیڈ اے بخاری، رضی اختر شوق اور نہ جانے کیا کیا ہستیاں مستقبل کے فنکاروں کی صلاحیتوں کو تراش رہی تھیں۔ لطف اللہ خان یادوں کے میوزیم میں آوازوں کو سنبھال کر محفوظ کررہے تھے۔ شان الحق حقی نے تحقیق و ترجمے کا ایک دفترکھول رکھا تھا۔ ابنِ صفی اپنے ہنر کا جادو جگا رہے تھے۔ تخلیق کاروں کی ایک کہکشاں تھی جس سے یہ شہر روشن تھا۔

اسی تصور کے زور پر خیال پرواز مزید آگے بڑھے تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ سلیم احمد فلسفے اور ادب پر اپنے دانشور دوستوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ قمر جمیل کے ہاں شعری مباحث کے دریچے کھلے ہوئے ہیں۔ صادقین کو فن پاروں پر کام کرتے ہوئے کئی گھنٹے گزر گئے ہیں، جون ایلیا کسی دوست سے روٹھ کر خاموش بیٹھے کسی تخلیقی مسئلے پر غور کر رہے ہیں۔

مشفق خواجہ کے کتب خانے میں کوئی طالب علم بیٹھا تحقیق کے مسائل حل کرنے میں جتا ہوا ہے۔ شوکت صدیقی جیسا ناول نگار اپنی تخلیقات کے راستے تراش رہا ہے۔ منہاج برنا، معراج محمد خان، خالد علیگ اور سینکڑوں صحافی تاریخ کو محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ یہ وہ شہر ہے جس کی تاریخ کو عہدِ حاضر کے سیاسی ہنگاموں نے فراموش کردیا۔

مشہور مصنف ابنِ صفی (دائیں) کراچی کے ایک بک اسٹال پر۔ 1963۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز۔
مشہور مصنف ابنِ صفی (دائیں) کراچی کے ایک بک اسٹال پر۔ 1963۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز۔

اس شہر میں مشاعرے اور ادبی محفلیں عروج پر تھیں۔ گائیک اور موسیقار سریلی دھنیں تخلیق کرنے میں مصروف تھے۔ اداکار تھیٹر کے منچ پر ٹیلی وژن کیمرے کے سامنے اور ریڈیو کے مائیکروفون پر اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے میں ہمہ وقت مگن تھے۔ ہوائی اڈہ بین الاقوامی پروازوں کی گزرگاہ تھا۔ اس شہر کی روح اور دیواریں صاف تھیں، اس وقت تک کسی سیاسی جماعت کا پوسٹر چسپاں نہیں تھا۔ نفرت کے نعروں سے فضا ابھی پوری طرح آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ شہر کا منظر نامہ اور مکینوں کے دل بالکل شفاف تھے۔

گزرتے وقت کے ستم نے شہر کے نقوش اور حلیہ بگاڑا، مگر اہلِ علم نے خود کو چھوٹے چھوٹے علمی جزیروں میں تبدیل کر لیا۔ علم و محبت کا فیضِ عام پھر بھی جاری رہا، شاید اس شہر کی ثقافتی آکسیجن کی فراہمی یہی محفلیں تھیں، جن کے بارے میں بہت کم بات ہوتی ہے۔ ہر طرح کے حالات کے باوجود کچھ لوگوں نے میل ملاقات کے سلسلے اور علمی موضوعات پر گفت و شنید کی روایت کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اس طرح کچھ دیر کے لیے ہی سہی، تلخ ماحول سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

موجودہ کچھ عرصے میں جو محفلیں قائم رہیں، ان میں سرِفہرست معروف فلسفی اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر منظور احمد کا گھر تھا، جو ایک عرصے تک شہر میں علمی و ادبی محفلوں کا مرکز رہا، ان کی بیماری کے بعد سے اب وہ محفلیں موقوف ہیں۔

معروف ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی جب تک حیات رہے، ان کے ہاں بھی ہر اتوار کی صبح ادبی محفلوں کے لیے مخصوص تھی، جس میں شہر بھر کے دانشور اور تحقیق کے طلبا شریک ہوتے رہے۔ معروف ماہرِ تعلیم اور محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ہاں بھی طلبا اور دانشوروں کے لیے اتوارکا دن مخصوص ہے، جہاں سب اکٹھے ہوتے ہیں۔ معروف صحافی اور ادیب انورسن رائے کے گھر پر ہر منگل کی شام مخصوص ادیبوں کا اجتماع ہوتا ہے، جس میں افضال احمد سید، تنویر انجم، اجمل کمال اور دیگر جمع ہوتے ہیں۔

ہفتے کے روز شکیل عادل زادہ کا دفتر بھی ایک محفل میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے، جہاں مبشر علی زیدی، عقیل عباس جعفری، انیق احمد اور دیگر شریک ہوتے ہیں۔ معروف مصورہ شاہین صدیقی کی آرٹ گیلری بھی ادبی فضا اور موسیقی کی محفلوں کے لیے دستیاب رہتی ہے۔ شکیل عادل زادہ کے ہاں لگائی جانے والی محفل کی مانند یہاں بھی طعام کا بندوبست ہوتا ہے جس سے محفل کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔

معروف مصور اور موسیقار عزیز مرزا اور ان کے ہم مزاج دوستوں نے اپنے ہاں موسیقی کی زبردست محفلوں کا اہتمام کیا۔ ہر اتوار کو شاندار جگل بندی دیکھنے اور سننے کو ملتی۔ یہ تمام مذکورہ محفلیں کم و بیش اب بھی جاری رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ اپنے اپنے علاقوں میں کئی شخصیات ایسی ہی محفلوں کا مرکز ہیں جو ہر سطح کے لوگوں کی علمی تشنگی دور کرنے میں مددگار ہیں۔

جون ایلیاء اور عبیداللہ علیم۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز۔
جون ایلیاء اور عبیداللہ علیم۔ — فوٹو کری ایٹو کامنز۔

شخصیات کی طرح کچھ ایسے پلیٹ فارم بھی ہیں جہاں سے علمی و ادبی محفلوں کو سجانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے تاکہ شہر کی رونقیں بحال رہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہء تصنیف و تالیف کے سید خالد جامعی کے توسط سے شعبے کے کتب خانے میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک محفل کا انعقاد ہوتا ہے، جہاں فلسفہ، تاریخ، ادب، سیاست، مذہب سمیت دیگر موضوعات پر مفصل گفتگو کی جاتی ہے۔ حاضرین میں طلبا کی اکثریت ہوتی ہے جو اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ کراچی پریس کلب میں کئی برسوں میں ادبی کمیٹی بھی نئی کتابوں اور شاعروں ادیبوں کے لیے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ اس میں معروف صحافی زیب اذکار پیش پیش ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین، غالب لائبریری، انجمن ترقی اردو، کراچی آرٹس کونسل، دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف)، ڈیفنس لائبریری کراچی، ڈیفنس لائبریری کا ریڈنگ کلب سمیت شہر بھر کے وہ چائے خانے جہاں دانشور اپنی ہفتہ وار محفلیں لگاتے رہے، اب کچھ عرصے سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس، انڈس ویلی، تہذیب فاؤنڈیشن، کل پاکستان موسیقی کانفرنس، حلقہ ارباب ذوق، اجراء تخلیقی مکالمہ، آزاد خیال ادبی فورم سمیت دیگر بھی ثقافتی سرگرمیوں میں اپنا حصہ باقاعدگی سے ڈال رہے ہیں۔ ان سب نے ہر طرح کے حالات میں اس شہر کی ثقافتی زندگی کو متحرک رکھنے میں اپنا کردار نبھایا۔

شہرِ کراچی کی رونقیں واپس بحال ہونا شروع ہوئی ہیں، مگر ایک دوسرے سے فاصلے ابھی تک برقرار ہیں جس کی ایک وجہ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی بھی ہے۔ مگر وہ لطف جو ملاقات میں ہے، اس کا متبادل کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔

اس لیے جائیے، کسی پرانے دوست کو چائے پر مدعو کیجیے، شہر کی ثقافتی زندگی میں اپنا حصہ ڈالیے، اس شہر کی ساری رونقوں کا محور آپ ہی ہیں۔ سیاسی مداری کچھ نہیں کر سکتے اگر عوام اس شہر کی رونقیں بحال کرنے پر مصر ہوجائیں۔ صرف ایک ارادے پر تمام رونقیں لوٹ سکتی ہیں۔ اس شہر کو کئی برسوں سے آپ کی آمد کا بھی انتظار ہے تاکہ اس کی چھینی ہوئی بینائی واپس لوٹ سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

shahnaz Aug 29, 2016 04:43pm
ادب ھمیشہ جمہوریت میں پھلتا پھولتا ھے گھٹن اور حبس میں سانسیں دُشوار ھو جاتی ہیں
اسرارایوبی Aug 29, 2016 10:04pm
دراصل ارض وطن کے سب سے بڑے شہرکراچی عظمیٰ کا یہ حشر فوجی آمر جنرل ایوب خان کی جانب سے کراچی سے دارالحکومت کی بلاجواز اسلام آبادمنتقلی,نام نہاد عوامی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے شہری دیہی کی تفریق,سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بے گناہ اور معصوم شہریوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑنے اور بعد ازاں دیگر فوجی آمروں ضیاء اور پرویزکی جانب سے اپنےاقتدار کو دوام بخشنے سیاسی قوتوں کو نظر انداز کرکے لسانی گروپوں کی سرپرستی کی پالیسیوں کا مرہون منت ہے.
رے سین Aug 30, 2016 01:35am
لاجواب البتہ نامکمل ۔۔۔۔ کراچی یک زبانی شہر نہیں، کثیراللسانی شہر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش آپ دوسری زبانوں ، سندھی ،، بلوچی ، کا بھی ذکر کرتے، کیا ہی اچھا ہوتا۔۔۔ آپ جس دور ، ساٹھ یا ستر کی دہائی ، میں ڈوبے ہوئے ہیں ، ان دہائیوں میں بنگالی زبان بھی اس شہر کا حصہ تھی اور کمال ہے، آپ کی نظر نہیں پڑی۔۔۔۔۔۔ طرز تحریر خوب ضرور ہے ، ہرچند دلِ تو انصاف ندارد۔
خرم سہیل Aug 30, 2016 06:50am
@shahnaz شکریہ شہناز صاحبہ اس تحریر پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے لیے ۔ آپ کی بات سے سوفیصد متفق ہوں ، بے شک ادب جمہوریت میں ہی پنپتا ہے نہ کہ جمہوریت نما فاشزم اور آمریت میں ۔
afshan khalid Aug 30, 2016 10:10am
Maa sha allah bohat khub likha he...mere bachpan aur mere abbu jan abdur rashid mirza(rashid tabassum mirza) aur mere piyare shehar ki yaden taaza ho gai.wo bhi ymca aur empis me adbi mehfilon mushairon me shirkat kya kerte they,zulficar bukhari jamil uddin aali ke dost they.karachi hockey association ke honorary secretary bhi they,newspaper me bhi sports per column likhte they
Emran Riaz Sep 02, 2016 03:15pm
کب ٹہرے گا درد اے دل کب رات سحر ہو گی