کراچی: ایک ویران جزیرے یا شاید ایک صحرا میں پھنسے ہونے کے دوران اسے ایک جادوئی انگوٹھی مل جاتی ہے اور فوراً ہی ایک جن اس کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے، وہ جن کو کہتا ہے کہ اسے کہیں جانا ہے اور اس سے پہلے ہی ایک اُڑن قالین وہاں موجود ہوتا ہے، جس پر سوار ہوکر وہ اوپر، مزید اوپر اڑتا چلا جاتا ہے۔

ایک صارف اپنے اسمارٹ فون پر اوبر ایپ استعمال کرتے ہوئے—۔فوٹو: طاہر جمال/ وائٹ اسٹار
ایک صارف اپنے اسمارٹ فون پر اوبر ایپ استعمال کرتے ہوئے—۔فوٹو: طاہر جمال/ وائٹ اسٹار

جادوئی اور پریوں کی کہانیاں بہت مزے کی ہوتی ہیں، کم از کم اُس وقت تک جب تک حقیقت آپ کو جھنجوڑ نہیں دیتی، لیکن یہاں تو ہماری قسمت میں ایک پان چبانے والا رکشہ ڈرائیور ہے، جو آپ کو اُس وقت تک صدر لے جانے پر رضامند نہیں ہوتا جب تک آپ 300 روپے یا اس سے زیادہ کرائے کے لیے راضی نہ ہوجائیں، باوجود اس کے کہ میٹر کام کررہا ہو اور کم کرائے کی جانب اشارہ کر رہا ہو۔ دوسری جانب ٹیکسی ڈرائیورز کے بھی اپنے ہی مزاج ہوتے ہیں، اگر وہ آپ کے روٹ کی طرف نہیں جارہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی کہیں نہیں جارہے!

سواری کی تلاش میں سرگرداں لوگ بھی کچھ کم نہیں، ایک خاتون اپنے 3، 4 بچوں کے ساتھ ایک رکشے میں فٹ ہونے کی کوشش کرتی نظر آئیں گی، اس موقع پر کرائے پر بحث اور ناختم ہونے والے مذاکرات کوئی نئی بات نہیں۔

لیکن اب ایسی بہت سی اسمارٹ فون ایپس بھی موجود ہیں، جنھیں مفت ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے اور جن کی مدد سے کرائے پر سواری حاصل کرکے سفر کیا جاسکتا ہے، ان ایپس میں سے نئی 'اوبر' ہے، جس نے 6 ماہ قبل لاہور میں کامیابی سے متعارف ہونے کے بعد اب کراچی میں بھی اپنی سروس کا آغاز کردیا ہے۔

مزید پڑھیں:اوبر کا کراچی میں سروس شروع کرنے کا اعلان

کرنا آپ کو یہ ہے کہ بس اوبر کی ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور پھر آپ کبھی بھی، کہیں بھی نہیں پھنسیں گے، آپ کا فون وہ چیز ہے، جسے آپ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، جو آپ کے حکم پر آپ کو جن 'اوبر ایپ' سے منسلک کردیتا ہے، جو پھر آپ کو اڑن قالین پر سوار کرادے گا۔ یہاں اڑن قالین کئی ماڈلز اور کمپنیوں کے ہوسکتے ہیں، مثلاً سوزوکی سوئفٹ، ٹویوٹا وٹز، ٹویوٹا کرولا، ہونڈا سوک اور ایسی ہی بہت سی گاڑیاں اور ان کا ڈرائیور بھی کوئی بھی ہوسکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کمپنی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

اوبر پاکستان کے سربراہ زوہیر یوسفی کے مطابق، 'اوپر اپنی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو 'ڈرائیور' نہیں کہتا، وہ انھیں 'پارٹنر' تصور کرتا ہے'، ان کا کہنا تھا کہ اوبر کے ساتھ ہر کوئی پارٹنر بن سکتا ہے'۔

ذوہیر یوسفی کے مطابق، 'طلباء، اساتذہ اور کوئی بھی بیروزگار شخص جو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہتا ہو، ہمارے ساتھ بحیثیت پارٹنر کام کرسکتا ہے۔ یہ حقیقیت میں انٹرپرینور ہیں۔ لاہور میں ہمارے ساتھ ایک آئی ٹی کمپنی میں بحیثیت ڈیزائننگ سافٹ ویئر کام کرنے والا ایک شخص بطور پارٹنر کام کر رہا ہے اور اوبر سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے بیٹے کی کالج کی فیسیں ادا کرنے میں مددگار ہے۔

اور یہ آمدنی اس حوالے سے بھی بری نہیں کیونکہ پارٹنر شپ 50/50 کی بنیاد پر نہیں ہے، ایک پارٹنر عموماً آمدنی کا 75 فیصد حاصل کرتا ہے جبکہ اوبر کو 25 فیصد آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باجود ہر کوئی مختلف آمدنی حاصل کرتا ہے کیونکہ ہر کوئی فل ٹائم کام نہیں کرتا، پارٹنرز اپنے شیڈول کے مطابق کام کرسکتے ہیں، کچھ 8 گھنٹے کام کرتے ہیں جبکہ کچھ محض چند گھنٹوں کے لیے، لیکن اوبر کا پلیٹ فارم جوائن کرنے سے قبل انھیں تربیت اور نگرانی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

اسکریننگ پراسس کے سلسلے میں قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، کار رجسٹریشن اور پولیس کے ویریفکیشن سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ ایک کیریکٹر سرٹیفکیٹ بھی ضروری ہوتا ہے، جس کے بعد اس حوالے سے تربیت شروع ہوتی ہے کہ ایپ کو کس طرح آپریٹ کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ابو ظہبی میں اوبر اور کریم کی سروسز معطل

پارٹنرز کی ایپ کسٹمرز کی ایپ سے مختلف ہوتی ہے۔ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے اور رجسٹریشن کروانے کے بعد آپ اپنا جی پی ایس (لوکیشن) آن کرسکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اوبر کی کتنی گاڑیاں دستیاب ہیں، جبکہ کار، ڈرائیور کی معلومات، اس کی تصویر اور دیگر صارفین کی جانب سے کیے گئے ریویوز بھی آپ کی انگلیوں کی دسترس میں ہوتے ہیں۔

اس کا کرایہ بھی نہایت مناسب ہے، مثال کے طور پر صدر سے برنس روڈ سفر کرنے پر آپ کو 150 روپے ادا کرنے پڑیں گے جبکہ حیدری مارکیٹ سے بہادرآباد جانے کا کرایہ 200 روپے ہوگا۔

فی الوقت کراچی میں 'اوبرگو' کے نام سے جن علاقوں میں سروس فراہم کی جارہی ہے، ان میں کلفٹن، صدر، جمشید ٹاؤن، گلشن اقبال، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلبرگ ٹاؤن، شاہ فیصل کالونی، ملیر اورکورنگی شامل ہیں، لیکن اوبر جلد ہی اپنی سروس کو پورے شہر کے لیے فراہم کرے گی۔ یہ سروس صرف کریٹڈ کارڈز ہی قبول نہیں کرتی بلکہ کیش رقم بھی دی جاسکتی ہے۔

جب آپ سفر مکمل کرلیتے ہیں تو آپ کو اورڈرائیور کو ایک دوسرے کو ریٹ کرنا پڑتا ہے اور اپنا ردعمل دینا پڑتا ہے، دوسری جانب کسی بھی مسئلے کی صورت میں کسٹمر سپورٹ اسٹاف بھی ہر وقت موجود ہوتا ہے۔

ذوہیر یوسفی کے مطابق ان کے پارٹنرز اچھے ریویوز حاصل کرنے کی امید میں اپنی گاڑیوں کو اچھی کنڈیشن میں رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گاڑیاں ایئر کنڈیشنڈ اور ان میں سیٹ بیلٹ بھی موجود ہوتی ہیں۔

اوبر 2009 میں امریکا میں متعارف ہوئی اور اب اس کی سروس دنیا کے 70 ممالک کے 500 سے زائد شہروں میں دستیاب ہے۔

ذوہیر یوسفی کے مطابق ہم کسٹمرز اور پارٹنرز کی ضروریات کے مطابق اپنی سروس کو مسلسل بہتر بنارہے ہیں، پاکستان میں ایک بہت اچھا موقع ہے، یہاں چیزوں کو لانچ کرنے کی گنجائش موجود ہے، یہاں مقابلے کی اچھی فضا ہے۔

سو اگر آپ کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے تو آپ اپنے آپ کو کراچی یا لاہور میں کہیں مجبوری کا شکار نہیں پائیں گے، کم از کم اُس وقت تک جب تک یہ سروس دیگر شہروں میں بھی متعارف نہیں کروادی جاتی، اب آپ پھر سے جادوئی اور پریوں کی کہانیوں پر یقین کرسکتے ہیں۔

یہ رپورٹ 30 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Faisal Amir Awan Aug 30, 2016 09:26pm
Dear Ms S.Hasaan,I disagree with most of what you have wrote in your column because UBER is merely the platform to accommodate riders with the drivers, it is not an ordinary taxi service where all the proceeds go to the taxi driver and money be spent within local economy & stay within the country.In the UBER situation, nearly 25% of what any drivee earns goes to the UBER and that money leave the country for good. Uber service will also put a lot of local taxi drivers out of business in Pakistan because in order to drive Uber one does not need a *taxi"car. Anyone with a decent looking car can drive UBER, thus jeopardizing professional taxi driver so please do not jump onto conclusion as UBER maybe the platform to accommodate riders with drivers it is detrimental to the local economy and professional taxi drivers. It is banned in nearly half the developed countries because they have protected a taxi driver and the local economy by not allowing Uber to operate.