گردیز: افغان حکام نے ملک کے مشرقی صوبے پکتیا میں امریکی فضائی کارروائیوں میں حقانی نیٹ ورک کے 4 اہم کمانڈروں سمیت درجنوں عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ افغان حکام نے افغانستان میں کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی نشاندہی کرتے ہوئے طالبان اور داعش کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کا نام بھی استعمال کیا تاہم اس سے قبل افغانستان صرف الزام کی حد تک دعوے کرتا رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی مدد سے افغانستان میں حملوں میں ملوث ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق گورنر صوبہ پکتیا کے ترجمان نقیب احمد نے دعویٰ کیا کہ جانی خیل کے علاقے میں ہونے والی فضائی کارروائیوں میں 120 عسکریت پسند مارے گئے ہیں، یہ علاقہ پاکستان اور افغانستان سرحد کے درمیان اہم دفاعی علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مذکورہ خبروں کی تردید کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ امریکی فضائی کارروائی میں 8 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان اور داعش کے درمیان معاہدہ، روس کے خدشات

طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ لڑائی میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 48 اہلکار ہلاک کیے گئے ہیں۔

افغان فوج کے ترجمان فضل خدا ابراہیم خیل کا کہنا تھا کہ امریکی ڈرون نے علاقے میں اس مقام پر میزائل داغے تھے جہاں عسکریت پسند جمع تھے۔

افغانستان میں نیٹو کے تحت جاری مشن کے عوامی امور کے ڈائریکٹر کرنل مائیکل لوہورن نے تصدیق کی ہے کہ امریکی فوجیوں نے افغان فورسز کی مدد کے ساتھ جانی خیل میں کارروائی کی تھی۔

تاہم انھوں نے اس علاقے میں جاری لڑائی کی مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔

ایک ای میل بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'میں تصدیق کرتا ہوں کے امریکی فورسز نے 4 فضائی کارروائیاں کی تھیں'۔

ایک افغان عہدیدار نے بتایا کہ حملے میں عسکریت پسندوں کی جانب سے چھینی گئی ایک فوجی گاڑی بھی تباہ ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: بم دھماکے میں امریکی فوجی ہلاک

ایک سینئر افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ ہفتے جانی خیل کے علاقے پر 1200 عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا اور ان میں سے بیشتر کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران افغان طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت امارت اسلامیہ قائم کی تھی اور وہ ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا کی اتحادی نیٹو افواج کے گزشتہ 13 برس سے جاری مشن کو ختم کردیا گیا ہے، جس کا آغاز 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد طالبان کے خلاف جنگ سے ہوا تھا۔

یکم جنوری 2015 سے نیٹو کی انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو ٹریننگ اینڈ سپورٹ مشن سے تبدیل کردیا گیا، جس کے تحت تقریباً 13 ہزار نیٹو فوجی افغانستان میں قیام کریں گے، ان میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔

طالبان کے خلاف جنگ کے باعث پورے ملک میں تشدد کی فضا پروان چڑھ چکی ہے اور سال 2014 میں تقریباً 3,188 افغان شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھے، جو اقوام متحدہ کے مطابق سب سے بدترین سال رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں