سبق حکومت سے پڑھ جمہوریت کا

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2016
پیپلز پارٹی کے دور میں ہر بات پر جمہوری اقدار یاد دلانے والے وزیرِ داخلہ آج اپنی حکومت میں وہ باتیں کیوں بھول گئے ہیں؟ — فائل فوٹو
پیپلز پارٹی کے دور میں ہر بات پر جمہوری اقدار یاد دلانے والے وزیرِ داخلہ آج اپنی حکومت میں وہ باتیں کیوں بھول گئے ہیں؟ — فائل فوٹو

ہم آئے دن سیاستدانوں سے جمہوریت کی مضبوطی، پارلیمنٹ کی خودمختاری، پارلیمانی نظام کے استحکام، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے سبق سنتے رہتے ہیں۔

اس طرح کی باتوں کا زور دو مواقع پر زیادہ ہوتا ہے، ایک جب سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ عوام کے آگے جھولی پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں، یا پھر انتخابات کے بعد وہ سیاستدان جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو جمہوری اقدار، روایات اور رویوں پر بات کرتے نہیں تھکتے۔

لیکن جب ان میں سے کوئی جماعت انتخابات جیت کر حکومت بنا لیتی ہے تو پھر انتخابی جلسوں میں کیے گئے وعدے اور نعرے بھول کر اپنی ڈگر پر چلنا شروع ہو جاتی ہے۔

پھر حکومتی اکابرین اپنے تمام غیر جمہوری فیصلوں کو بھی جمہوری کتاب میں سے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو اپنے کیے ہوئے تمام کام آئین کے عین مطابق اور حزبِ اختلاف کے تمام مطالبے غیر آئینی اور غیر جمہوری لگتے ہیں۔

اسی طرح مسلم لیگ نواز کی حکومت کو اب پاناما لیکس کی تحقیقات، وزیراعظم سے استعفے، تحقیقاتی کمیشن یا اس کے لیے قانون سازی کے مطالبات زہرِ قاتل کی طرح لگنے لگے ہیں، اور اس اسکینڈل پر تمام بحث، احتجاج، اور ٹاک شوز آئین سے ماورا لگتے ہیں۔ پاناما لیکس پر حکومت اتنی اکتا چکی ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو پاناما لیکس اسکینڈل پر اظہارِ خیال کا بنیادی حق بھی فی الوقت معطل ہی کر دے۔

مگر بات صرف موجودہ حکومت کی نہیں ہو رہی، بلکہ یہ ہر اس سیاسی حکومت کا المیہ ہے جو جمہوریت کا نعرہ لگا کر ایوانِ اقتدار تک پہنچتی ہے۔ اقتدار کی کرسی کسی بھی سیاسی جماعت کا رنگ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہی کرسی ان کو نعرے، وعدے اور کئی مطالبات تو بھلا دیتی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اپنی ہی جماعت کے اندرونی فیصلوں پر بھی پانی پھیرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پڑھیے: نواز، پارلیمنٹ اور غیر حاضری

پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت نے اقتدار سے پہلے عوام سے کیا کیا وعدے کیے تھے؟ جلسوں میں ان کے نعرے کیا تھے؟ اور پھر اقتدار ملنے کے بعد کیا کچھ نہیں ہوا؟

یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایک نہیں تین تین حکومتیں کام کر رہی تھیں، ایک حکومت پارلیمنٹ کے نزدیک ترین عمارت سے چل رہی تھی تو دوسری راولپنڈی سے۔ اور وہ دونوں حکومتیں پارلیمنٹ کے نظام پر مبنی حکومت سے زیادہ بااختیار تھیں اور ان دونوں حکومتوں کا کام تیسری کمزور حکومت کو ناکام کرنا تھا۔

لیکن اس کے باوجود کشمیر سے کراچی تک اس کمزور حکومت نے اندھی لوٹ مچائی ہوئی تھی۔ کوئی وزیر ایسا نہیں تھا جس نے جیبیں نہ بھری ہوں، اور پھر کئی میگا اسکینڈلز، این آر او اور عدلیہ بحالی پر حزبِ اختلاف کے مطالبوں پر بھی جو رویہ تب کی حکومت کا تھا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

تب مسلم لیگ نواز حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت تھی اور آج کے وزیرِ داخلہ محترم چودھری نثار علی خان اس وقت قائدِ حزبِ اختلاف کے منصب پر فائز تھے۔

وزیرِ داخلہ آج بھی خود کو پاکستان میں سب سے زیادہ جمہوریت پسند، ایماندار اور سینیئر سیاستدان سمجھتے ہیں۔ اس زمانے میں وہ آئے دن بھری پارلیمنٹ میں حکومت کی کلاس لیتے تھے، جس دوران وہ وزیرِ اعظم سے لے کر بیوروکریسی تک کسی کو نہیں بخشا کرتے تھے۔ سیاسی ریکارڈ پر ان کے حصے میں جمہوریت کے لیے نہ کسی قربانی کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی کردار دکھائی دیتا ہے، لیکن بات ہمیشہ جمہوری اقدار کی اور مثالیں مہذب جمہوری معاشروں کی ہوتی تھیں۔

اس وقت کے قائدِ حزبِ اختلاف نے کچھ اصول طے کیے تھے۔ انہوں نے یہ بات سمجھائی کہ قائدِ حزبِ اختلاف شیڈو وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی تقریروں سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اپوزیشن لیڈر جب چاہے اور جتنا چاہے ایوان میں بول سکتا ہے۔ آج بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بطور قائدِ حزبِ اختلاف جتنا وقت چودھری نثار علی خان پارلیمنٹ میں بولے، پارلیمانی تاریخ میں اتنا وقت کسی کو نہیں ملا۔

وہ میثاقِ جمہوریت کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی سب سے بڑی کمیٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ بھی منتخب ہوئے اور پھر قومی اسمبلی کے فلور پر انہوں نے اعلان کیا تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں وزارت کا پرنسپل افسر یعنی وزارت کا سیکریٹری ہی آئے گا، اور اگر کسی بھی وزارت کا کوئی چھوٹا افسر اس کی جگہ پر آیا تو نہ صرف یہ کہ اسے سنا نہیں جائے گا، بلکہ کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھنے بھی نہیں دیا جائے گا۔

اس طرح ایک روایت قائم ہوگئی۔ لیکن ان کی قائم کردہ روایات کو ان کی اپنی حکومت میں کس طرح روندا جا رہا ہے، بات اس کی ہو رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان جب تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ رہے، وزارتوں کے سیکریٹریز ہی کمیٹی میں پیش ہوتے رہے۔ لیکن یہ سلسلہ 8 ستمبر 2016 کو موجودہ حکومت کی مہربانی سے ٹوٹ چکا۔

یہ شاید 2008 کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا پہلا اجلاس تھا جس میں طلب کیے گئے تقریباََ آٹھ افسروں میں سے ایک بھی افسر اجلاس میں نہیں آیا۔ بات تو سمجھنی آسان ہے کہ وہ افسران کیوں نہیں آئے، لیکن اس طرح کی روایات بھی تو وہ ہی ڈال رہے ہیں جو جمہوریت، پارلیمانی نظام، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور اقتدار کو عوام کی امانت سمجھتے ہیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے 8 ستمبر کے اجلاس کا ایجنڈا پاناما لیکس تھا، اس لیے سیکریٹری خارجہ، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، چیئرمین نیب، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور دیگر افسران کو طلب کیا گیا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔

کوئی ایسے کیسے تصور کر لے کہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی کمیٹی کے سامنے اہم ترین ریاستی اداروں کے سربراہان اپنی مرضی سے نہیں آئے؟ سب افسران کے ماتحت اپنے بالا افسران کی جان چھڑوانے کے لیے اجلاس میں کوئی نہ کوئی عذر لے کر آئے تھے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پہلی بار احتجاجاً اجلاس ملتوی کر دیا، اور اپنی بے توقیری دیکھ کر ان افسران کے سمن جاری کر دیے گئے۔

پڑھیے: بادشاہی جمہوریت یا جمہوری بادشاہت؟

اس سارے معاملے سے دو باتیں تو ظاہر ہو چکیں: ایک یہ کہ وزیرِ اعظم پارلیمنٹ یا اس کی کسی کمیٹی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں، پاناما یا کسی اور معاملے یا اسکینڈل میں وزیرِ اعظم کا نام آ بھی جائے تو اس کی وضاحت کے لیے کوئی افسر کسی کمیٹی یا فورم پر پیش نہیں ہوگا۔

پارلیمنٹ کی کوئی بھی کمیٹی پارلیمنٹ کا بازو ہوتا ہے اور اسے پارلیمنٹ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اہم جزو کو صرف اس بنیاد پر بے توقیر کیا جانے لگا ہے کہ اس میں پاناما لیکس کا معاملہ آئے گا، پھر پوچھ گچھ ہوگی، جس کے نتیجے میں مختلف اقسام کے بیانات آئیں گے اور پھر میڈیا میں ایک نئی بحث شروع ہو سکتی ہے۔

یہی جمہوری حکومت جب حزبِ اختلاف میں تھی تو آئے دن حکومت کو جمہوریت کی مضبوطی کے سبق یاد کروایا کرتی تھی، لیکن اس بار اس کے قول اور فعل میں اتنا تضاد پیدا ہونے کی کیا وجہ ہے؟

یہاں پر تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی کہی ہوئی بات کیا صحیح نہیں معلوم ہوتی کہ "حکومت وزیرِ اعظم کو بچانے کی خاطر جمہوری اداروں کو داؤ پر لگا رہی ہے"۔ یعنی پاناما لیکس کا معاملہ جہاں بھی آئے وہاں اس کا گلہ گھونٹ کر دبا دیا جائے، پہلے تو کوئی اس بحث میں نہ الجھے، اور اگر افسران، یا وزیر مشیر ایسے کسی فورم پر چلے بھی جائیں تو اس میں بھی حکومت کا دفاع کرنا ہے، اور حزبِ اختلاف کو حزبِ انتشار قرار دے کر بات ختم کر دینی ہے۔

پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کی بے توقیری کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے کچھ دن پہلے یعنی اگست کے مہینے میں وزارتِ داخلہ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیکریٹری داخلہ کو بلایا گیا تھا، لیکن اس اجلاس میں نہ سیکریٹری داخلہ تشریف فرما ہوئے، نہ ایڈیشنل سیکریٹری اور نہ کسی اور ذمہ دار افسر نے آنا گوارا کیا۔ فرض کریں اس طرح کا کوئی واقعہ کسی اور حکومت میں پیش آجاتا تو آج کی حکومت آسمان سر پر اٹھا لیتی اور وہ اب بھی اٹھنا چاہیے۔

شکوہ پارلیمنٹ تک پہنچا، بات جب ایوان کے اندر ہوئی تو وزیرِ داخلہ صاحب خود تشریف فرما تھے۔ قائمہ کمیٹی کے سینیئر ممبر نواب یوسف تالپور نے دکھڑا پارلیمنٹ کے فلور پر سنا دیا، جس کا وزیرِ داخلہ نے رسمی نوٹس لیا۔

وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ بات پہلی بار میرے علم میں آئی ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو تحقیقات ہوگی اور پھر کارروائی ہوگی‘‘۔

اب یہ بات کون مانے گا کہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری داخلہ اور ان کے ماتحت افسروں نے آنے سے انکار کیا اور وزیرِ داخلہ کو اس بات کا پتا بھی نہ چلے؟ اور اگر پتہ لگا تو بھی کیا فرق آیا؟ وہ نوٹس لیا گیا لیکن کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی نہ کوئی نتیجہ نکل سکا۔

ایک دن پھر کمیٹی کے ممبر نے یہ گلہ کرتے ہوئے کہا کہ "اگر پارلیمنٹ کی اسی طرح توہین کرنی ہے تو پھر پوری کمیٹی استعفیٰ دے دی گی۔" پر وہ شکوہ بھی بے فائدہ نکلا، نہ کسی وزیر نے نہ اسپیکر نے اس بات کا کوئی نوٹس لیا۔ اگلے دن پھر وہ ہی بات دہرائی گئی لیکن پھر بے اثر رہی۔

پارلیمنٹ کی کمیٹی کو اس طرح خوار کرنے والی افسر شاہی کے خلاف وعدے کے باوجود کوئی کارروائی نہ ہونے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی ایما پر ہوا ہے، کیونکہ پہلے تو وزیر موصوف کو "پتا نہیں تھا" لیکن بعد میں جب اس بات کا پتا چلا اور پارلیمنٹ کے فلور پر اس پر کارروائی کرنے کا وعدہ کیا گیا تو پھر بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

اسی طرح کا ایک اجلاس سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا ہوا۔ اگست کے مہینے میں اس اجلاس کی صدارت محترمہ نسرین جلیل کر رہی تھیں۔ اس اجلاس میں سندھ رینجرز اور ایف سی کے افسران کو بلایا گیا تھا لیکن اس اجلاس میں بھی دونوں فورسز کے افسران نہیں آئے تھے جس پر کمیٹی نے وزیرِ اعظم کو شکایت کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ حال ہے ہماری پارلیمنٹ اور ان سے جڑے باقی اداروں کا، جنہیں وزیر اور مشیر تو پہلے ہی نہیں پوچھتے تھے، لیکن اب تو انتظامیہ کے افسران نے بھی انہیں گھاس ڈالنی چھوڑ دی ہے۔

وزیرِ اعظم کی پارلیمنٹ میں غیر حاضری کے سوال پر وزراء جواز پیش کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم چوں کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور اس کو پورے سسٹم کو چلانا ہوتا ہے، اس لیے پارلیمنٹ میں اس کے نمائندے موجود ہوتے ہیں، وزیرِ اعظم کا آنا ضروری نہیں۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم کے نمائندوں کی حالت یہ ہے کہ ساری پارلیمنٹ کی ذمہ داری میاں ریاض حسین پیرزادہ اور شیخ آفتاب کے کاندھوں پر ہے، جبکہ باقی وزراء اپنے مزاج کے بادشاہ ہیں، جب دل کرتا ہے پارلیمنٹ میں آتے ہیں جب دل نہیں کرتا نہیں آتے۔

پڑھیے: پارلیمنٹ سے غیر حاضری کا نقصان

2002 سے اس پارلیمنٹ کی کارروائی پر میری نظر ہے۔ پرویز مشرف کی آمریت میں بھی پارلیمنٹ میں کورم پورا ہوا کرتا تھا مگر اس جمہوری دور میں پارلیمنٹ میں کورم ٹوٹنے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو دیکھ کر وزراء نہیں آتے، جن سے عام حکومتی ممبران کو بھی غیر حاضری کے لیے شہہ ملتی ہے، تو پھر کورم کیسے پورا ہونا ہے؟

جمہوری روایات پر چلنے کے لیے سالوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اگر جمہوری نظام کے جڑ پکڑنے سے پہلے یعنی ابتدائی سالوں میں ہی حکومتی اداروں کی طرف سے پارلیمنٹ کی اسی طرح بے توقیری جاری رہی، تو پھر جمہوریت کی مضبوطی، پارلیمنٹ کی خود مختاری، پارلیمانی نظام کے استحکام اور آئین کی بالادستی کے سب نعرے دھرے کے دھرے رہ جانے ہیں۔

جب حکومت خود اپنے اداروں کو اتنی تضحیک کرنے لگے، تو کسی اور ادارے سے پارلیمنٹ کو عزت دینے کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں