نیویارک: وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ میں پانچ روز تک کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے بعد جمعے کو نیویارک سے لندن روانہ ہوگئے اور وزیراعظم کی میڈیا ٹیم کے ایک رکن کے مطابق لندن میں ہفتے کے آخری ایام گزارنے کے بعد وہ پیر کو وطن واپس پہنچیں گے۔

نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کشمیر کا معاملہ ضرور اجاگر کیا گیا تاہم اگر 18 ستمبر کو انڈیا کے اُڑی فوجی کیمپ پر حملہ نہ ہوا ہوتا تو یہ مسئلہ زیادہ بہتر طریقے سے اٹھایا جاسکتا تھا۔

اس حملے سے قبل امریکا کے معروف اخبارات اور ٹی وی چینلز نے کشمیر کے حوالے سے خصوصی رپورٹس نشر کی تھیں جن میں ہندوستانی فوجیوں کے ہاتھوں 100 سے زائد کشمیریوں کی ہلاکتوں اور ہزاروں پر امن مظاہرین کے زخمی ہونے کی نشاندہی کی جارہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:اُڑی حملہ:’ہندوستان الزام لگانے سے قبل خود کو بھی دیکھے‘

لیکن اُڑی حملے کے بعد شدت پسندی اور پاک ہندوستان ممکنہ جنگ موضوع بحث بن گیا۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ممکنہ جنگ کی قیاس آرائیوں نے پاکستان کے اس موقف کو تقویت بخشی کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو خطے میں جوہری تنازع پیدا ہوسکتا ہے۔

اُڑی حملے کے بعد توجہ مسئلہ کشمیر سے شدت پسندی کی جانب مرکوز ہونے کی وجہ سے دنیا کو حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کی جانے والی کشمیریوں کی پرامن جدوجہد سے روشناس کرانے کی پاکستان کی کوششوں پر منفی اثر پڑا۔

پاکستان کا کشمیر کے حوالے سے موقف اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے جاری اعلامیے میں نظر آیا جس نے نہ صرف ہندوستانی مظالم کی مذمت کی بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔

وزیر اعظم نواز شریف سے علیحدہ ملاقاتوں میں مسلم ملکوں کے دیگر رہنماؤں نے بھی ہندوستانی مظالم روکنے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر زور دیا جبکہ ترکی نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

مزید پڑھیں:وطن عزیز کے ہر انچ کا دفاع کریں گے، آرمی چیف

اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی بازگشت بھی جنرل اسمبلی میں سنائی دی اور پاکستان نے دعوت دی کہ وہ آزاد کشمیر میں بھی ایک ٹیم بھیجے تاکہ اس خطے کے حوالے سے ہندوستانی دعووں کا پول کھل سکے۔

مسئلہ کشمیر کی جانب دنیا کی توجہ دلانے کی پاکستانی کوششوں کا اثر امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بھی جزوی طور پر نظر آیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کشمیر کو داخلی مسئلہ قرار دینے کے ہندوستانی دعوے کو مسترد کیا اور اسے ہندوتسان اور پاکستان کا دو طرفہ مسئلہ قرار دیا۔

تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان پر بھی زور دیا کہ وہ 18 ستمبر کے واقعے کی تحقیقات میں ہندوستان کی معاونت کرے اور لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے خلاف فوری اقدامات کرے۔

محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’امریکا دہشت گردی سے نمٹنے میں ہندوستانی حکومت کے ساتھ اپنی مضبوط شراکت داری کے حوالے سے پر عزم ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں:اُڑی حملہ:تحقیقات کیے بغیر پاکستان پر الزام لگایا گیا،وزیر داخلہ

جب امریکی محکہ خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکی حکام کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے رابطے میں رہے تو انہوں نے کہا کہ نائب وزیر خارجہ انٹونی بلنکین نے ہندوستانی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر سے بات کی تھی جس میں انہوں نے اُڑی حملے کے حوالے سے اظہار افسوس اور تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی تھی۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات میں اُڑی واقعے پر بات کی تھی اور تحقیقات میں تعاون پر زور دیا تھا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان اور پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ براہ راست مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھیں‘۔

علاوہ ازیں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد سیدھا وطن واپس آنا چاہیے تھا کیوں کہ اس وقت ہندوستان جنگ پر تلا ہوا ہے اور ایسے میں وزیر اعظم کا ملک میں ہونا ضروری ہے۔

عام طور پر وزیر اعظم نواز شریف جب بھی شمالی امریکا یا یورپ کا سفر کرتے ہیں تو کچھ وقت لندن کے ہائیڈ پارک کے قریب پارک لین اپارٹمنٹس میں اپنے بیٹے کی رہائش گاہ کچھ عرصہ قیام ضرور کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ شریف خاندان کے لندن فلیٹس اس وقت توجہ کا مرکز بن گئے جب پاناما پیپرز میں ان کے آفشور اثاثوں کی تفصیلات سامنے آئیں اور اپوزیشن جماعتیں یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ لندن میں فلیٹس کی خریداری کے معاملے کی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں۔

اسلام آباد سے خاور گھمن نے بھی رپورٹ کی تیاری میں معاونت کی

یہ خبر 24 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں