کراچی: پاکستان رینجرز سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو روپوش ہونے کا مشورہ دیا، جس کے بعد کارکن 'اپنی مرضی سے غائب' ہوئے، لہذا انھیں 'لاپتہ افراد' میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ بات نسرین جلیل کی سربراہی میں کام کرنے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو رینجرز نے بریفنگ کے دوران بتائی۔

قائمہ کمیٹی کے ایک رکن نے لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال کیا، جس پر رینجرز کے کرنل قیصر خٹک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر شخص کی گمشدگی کو اس حوالے سے نہیں دیکھا جاسکتا، انھوں نے اپنی وضاحت کے دوران ایم کیو ایم بانی کی حالیہ ویڈیو کا بھی حوالہ دیا، جس میں الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

کرنل خٹک کا کہنا تھا کہ 'یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس طرح کے احکامات ماضی میں بھی کارکنوں کو دیئے جاتے رہے ہیں، لہذا ہمیں تمام گمشدہ لوگوں کو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے محتاط ہونا چاہیے، کیونکہ بہت سوں نے اپنی مرضی سے روپوشی اختیار کی ہے۔'

مزید پڑھیں:وسیم اختر کی معافی کا رینجرز پر کوئی اثر نہ ہوا

انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کارکن اور ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں ہلاکت کی تحقیقات اس وجہ سے شیئر نہیں کی جاسکتیں کیونکہ یہ مرحلہ ابھی جاری ہے اور اگر کسی کو ان معلومات تک رسائی چاہیے تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

کراچی کے پولیس چیف مشتاق مہر کا بھی کہنا تھا کہ مئی میں ہلاک ہونے والے ایم کیو ایم کارکن کی ہلاکت کی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے میں وقت لگے گا۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر اور قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن نسرین جلیل نے اس بحث پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں:آفتاب احمد کی موت: عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'یہ جرم ہوگا اگر قائمہ کمیٹی آفتاب احمد کی ہلاکت کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ان کی موت حراست کے دوران ہوئی تھی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'رینجرز کی جانب سے اس کیس کی تحقیقات کا کوئی جواز نہیں کیونکہ نیم فوجی فورس پر ہی قتل کا الزام ہے'۔

سینیٹر نسرین جلیل نے رینجرز اور پولیس کی جانب سے اس کیس کی تحقیقات پر اس حوالے سے نکتہ اعتراض اٹھایا کہ خود ان ہی پر اس کیس کا الزام عائد ہے۔

پولیس اور رینجرز کو اس موقع پر شہر میں ان کی کارکردگی اور انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے کافی چبھتے ہوئے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر ثمینہ عابد واحد رکن تھیں جنھوں نے رینجرز کی قیادت میں آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کراچی میں امن کی ضرورت تھی اور رینجرز نے اسے ممکن بنایا، کراچی میں امن کی بحالی کے سلسلے میں مسلح افواج کی قربانیوں کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے'۔

بریفنگ کے دوران رینجرز کے کرنل خٹک نے بتایا کہ کراچی میں 5 ستمبر 2013 کے بعد سے 7 ہزار 950 آپریشن ہوچکے ہیں جبکہ 6 ہزار 300 سے زائد مشتبہ ملزمان پولیس کے حوالے کیے گئے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 3 سالوں کے دوران رینجرز کے ساتھ مقابلوں میں 450 مجرموں کو ہلاک کیا گیا، جبکہ اس دوران 30 اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

یہ خبر 24 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں