’پاکستان، ہندوستان کے ساتھ مثبت تعلقات کیلئے پر امید‘

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2016
انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط
انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط

نئی دہلی: ہندوستان میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ پاکستان مستقبل میں انڈیا سے مثبت اور تعمیری تعلقات کے لیے پر امید ہے اور توقع کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنما سنجیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ بحران سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔

اخبار دی ٹیلی گراف کو دیئے گئے انٹرویو میں عبدالباسط نے کہا کہ ’جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کہا کہ پاکستان اپنے اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ معمول کے مطابق اور تعاون پر مبنی تعلقات چاہتا ہے اور تمام مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہاں ہے‘۔

عبدالباسط نے کہا کہ ہندوستان کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اب بھی اُڑی واقعے کی تحقیقات کررہی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ حملہ کیسے ہوا جس میں 18 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری یہ تجویز ہے کہ بغیر تحقیقات جلد بازی میں الزامات لگانا سود مند نہیں، سب نے دیکھا کہ پٹھان کوٹ واقعے کے بعد ہم نے کس طرح تعاون کیا، چیزیں مثبت سمت کی جانب گامزن تھیں اور اگر وہی جذبہ برقرار رکھا جائے تو مجھے یقین ہے کہ صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکا جاسکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد ٹوٹنے والے تعاون کے جذبے کو دوبارہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’اڑی حملہ کشمیریوں کا اپنا ردعمل بھی ہوسکتا ہے‘

پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ میں ایک سفارت کار ہوں اور چاہتا ہوں کہ سفارت کاری کی جیت ہو مجھے نہیں لگتا کہ دو طرفہ سفارت کاری خستگی کا شکار ہوچکی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین ہندوستان سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں دہشت اور تشدد پھیلانے کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے تعلقات درست سمت میں تھے، میں بہت پر امید تھا لیکن 8 جولائی (جب حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو ہندوستانی فورسز نے ہلاک کیا) کو حالات یکسر بدل گئے اور یہی وہ موقع تھا جب تسلسل ٹوٹا‘۔

انہوں نے کہا کہ اس تسلسل کو دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے سفارت کاروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ دہلی میں رہ کر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے یہاں کے لوگوں میں بھی امن اور باہمی سمجھوتے کی خواہش دکھائی دیتی ہے۔

عبدالباسط نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اُڑی حملے کے بعد دونوں ملکوں میں فوج کی تیاریوں کے آثار دکھائی دیئے تاہم انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی جنگ ہونے جارہی ہے، مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو ہیجان انگیزی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ دیگر کئی مسائل کی وجہ ہے‘۔

مزید پڑھیں:’پاکستان کو بدنام کرنے کی ہندوستانی مہم افسوس ناک‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمارے جو بھی مسائل ہیں انہیں پر امن طریقے سے حل ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم کچھ عرصے تک ایک دوسرے سے بات نہ کرنے کے متحمل تو ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے کئی باہمی ، علاقائی اور عالمی چیلنجز ایسے ہیں جو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس حوالے سے کوششیں جاری رکھوں گا اور ہمیں جنگ جنون کو غالب نہیں آنے دینا چاہیے‘۔

عبدالباسط نے کہا کہ ’ایسے لوگ موجود ہیں جن کے مفادات پاک ہندوستان تعلقات ڈی ریل ہونے سے وابستہ ہیں ، اگر آپ پٹھان کوٹ یا اُڑی واقعے کی بات کرتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ دونوں ملک اس بات پر متفق ہیں کہ جو میکینزم ہم نے اپنائے ہوئے ہیں ان میں اس طرح کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر ہر واقعے کے بعد ہم وہیں آجائیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا تو پھر ان مکینزم کا کوئی فائدہ نہیں رہ جاتا‘۔

یہ بھی پڑھیں:’مودی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کا مقصد یہی ہے کہ ان قوتوں کو موقع نہ دیا جائے جو یہ نہیں چاہتے کہ ہم باہمی تنازعات کو حل کرکے تعاون کے نئے دور میں داخل ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ عمل قدم بہ قدم آگے بڑھانا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں جانب سے کوششیں کی جائیں۔

جب عبدالباسط سے ان شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے پوچھا گیا جو پاکستان میں کھلے عام سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہندوستان پر حملے کا مطالبہ کرتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ دونوں ملکوں میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مطالبے آپ کو ہندوستان میں بھی نظر آئیں گے لیکن ہماری پالیسی ان گروپس کی جذباتی تقریروں پر مبنی نہیں ہوتی اور مجھے یقین ہے کہ نہ ہی انڈیا کی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے ان تنظیموں کے مطالبات کے حوالے سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے، لوگ ہر طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ حکومتیں کیا کہہ رہی ہیں اور کیا کررہی ہیں اور ہم امن کے باہمی کوششوں کے لیے پر عزم ہیں‘۔

یہ خبر 26 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں