بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

امریکا میں جب بھی دہشتگردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو دل سے پہلی دعا نکلتی ہے کہ قاتل کا نام مسلمانوں والا نہ ہو۔ نام مسلمانوں والا نکل بھی آئے تو دعا کرتے ہیں کہ پاکستانی نہ ہو۔

شہزاد، تاشفین، گل، خان نام کس ملک کے لوگ نہیں رکھتے، احمد عرب بھی ہو سکتا ہے، عمر متین یا رحامی نام تو افغانی لگتا ہے لیکن کیا پتہ ایرانی ہو، کوچک قسم کے نام تو ترکی لگتے ہیں۔

اشاروں کنایوں میں، دبے دبے لفظوں میں حساب لگایا جاتا ہے کہ اب ہوا کہاں کو چل رہی ہے اور کس ملک والوں پر بدنامی کا دھبہ لگ رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ جو بھی نام ہو، کہیں نہ کہیں سے پاکستان سے تعلق نکل ہی آتا ہے۔ اتنا عرصہ رہا تھا۔ یہاں سے گزرا تھا۔ اس سے تعلق تھا۔ یہاں پر بات کرتا تھا۔

ہم بستہ الف کے وہ بدمعاش بن گئے ہیں جنہیں محلے میں ہونے والی کسی بھی چوری کی صورت میں تھانے بلایا جاتا ہے۔

آپ وہاں بیٹھے تارکین وطن کو دیکھیے، کبھی نیویارک کے جیکسن ہائیٹ کا چکر لگائے یا ہیوسٹن کی کسی مسجد میں نماز پڑھتے مہاجرین کی پہلی نسل کو دیکھیے۔ اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر سورج مکھی کے پھول کی طرح توجہ کا رخ اسی زمین کی طرف ہے جہاں سے در بدر ہوئے تھے۔

بنگالی بنگلہ دیش کو یاد کرتا ہے، پاکستانی پاکستان کو، انڈین کو ہریانہ کی بہاریں یاد آتی ہیں اور لبنانی کو بیروت کے بازار۔ جینا وہاں ہے جہاں گاڑیوں کے پرزے آواز نہیں دیتے لیکن مرنا وہاں ہے جہاں فاتحہ پڑھنے زیادہ لوگ قبرستان آ سکیں۔

مسجدوں میں جائیے، جمعے کی نماز کے بعد، عید کے بعد، دنیا جہان کے ممالک کی سلامتی کے لیے دعا مانگی جائیں گی۔ ایران، عراق، سعودی عرب، چیچنیا، بنگلہ دیش، برما، شام وغیرہ مگر جس ملک نے سیاسی پناہ دی، یا جس کی شہریت نے ترقی کے دروازے کھولے اس کا ذکر ہی نہیں۔

کبھی ڈرائنگ رومز کی گفتگو غور سے سنیے۔ سیلاب، زلزلہ، دھماکہ، مارشل لا، جمہوریت، جیت، ہار، خوشی، غم، ہر چیز کا قصوروار محبوب کو ٹھہرانے والے شاعروں کی طرح ہم اپنی ہر تکلیف کا الزام اپنے پسندیدہ امریکا کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔ اللہ جنت نصیب کرے ببو برال کہا کرتے تھے کہ ہم وہ قوم ہیں جو گھر والی سے مار کھا کر تانگے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جو کچھ کرواتا ہے امریکا کرواتا ہے۔

پڑھیے: 'یہ کام مسلمانوں کا نہیں'

سارے لوگ یہاں جینے ہی آئے ہیں۔ عمر متین کے ماں باپ بھی، رحامی کے ماں باپ بھی، تاشفین ملک بھی اور شہزاد احمد بھی۔ پھر کیا بدل جاتا ہے؟ دو وقت کی روٹی ملتے ہی ہمیں ان ملکوں کا نظام بدلنے کی فکر کیوں لگ جاتی ہے؟ ہمارا انقلابی پیٹ بھرتے ہی گہری نیند سے کیوں جاگ جاتا ہے؟

مسئلہ کچھ ٹیکنالوجی کا بھی ہے۔ گلوبل ولیج نے جہاں فاصلے مٹا دیے ہیں وہاں تہذیبی اختلافات بھی زیادہ شدت سے ابھار دیے ہیں۔ ان کے ہاں اولڈ ہاؤسز ہیں جو ہمارے نزدیک ماں باپ کی تذلیل ہیں۔ ہمارے ہاں کم عمر یا کزنز میں شادیاں ہیں جو پھر انہیں بری لگتی ہیں۔

ان کے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہماری شکلوں سے نفرت ہے۔ ہمارے مولوی عبدالعزیز کو گوری میمیں اچھی نہیں لگتی (یا شاید لگتی ہوں مگر میرا مطلب سمجھ گئے ہیں نا آپ۔)

عمر متین اگر افغانستان میں ہوتا تو ملک اور لونڈے کے رشتے کو وہاں رائج ایک رواج سمجھ کر قبول کر لیتا مگر اس کے نزدیک نائٹ کلب ایک قابل نفرت چیز ہے۔

ٹیکنالوجی نے تہذیبوں، مذاہب اور زبانوں کے اختلاف کو مائیکرو اسکوپ کی طرح میگنیفائی کر کے رکھ دیا ہے۔

مذہب، ثقافت، زبان اور رواج کا فرق ایک ٹکراؤ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ تہذیبیں مکمل تو نہیں ٹکرا رہیں مگر ان کے چبھتے کونے سڈول ضرور ہو رہے ہیں۔

امریکا میں پلنے والی نئی نسل ایک شناختی تذبذب میں ہیں۔ وہ کیسے اس ملک کو اپنا ملک مانیں جب ان کے ماں باپ اس کی سلامتی کے لیے دعا مانگنے سے گریزاں ہیں؟

وہ کیسے اپنی جائے پیدائش سے ہمدردی کریں جب وہ اپنے گھروں میں ان زیادتیوں کا ذکر سنتے ہیں جو ان کی پیدائش کا ملک ان کے ماں باپ کی پیدائش کے ملک کے ساتھ کر رہا ہے؟

وہ جب ڈونلڈ ٹرمپ کو سنتے ہیں جو انہیں ان کے مذہب کے نام پر الگ کرتا ہے، یا سیاہ فاموں پر سفید فاموں کے تشدد کا ذکر سننے کو ملتا ہے، یا جب وہ فرانس میں برقعے پر پابندی کا ذکر سنتے ہیں تو ایک شناخت کا مسئلہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔

پڑھیے: نیویارک بم دھماکوں کا ملزم پاکستانی مدرسے کا طالب علم؟

سب نہیں، مگر کچھ جذباتی اور تشدد پر مائل نوجوانوں کو یہ سب ضرور تنگ کرتا ہے۔ وہ اپنی جڑوں کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کے ملک سے نظریاتی کمک مانگتے ہیں۔

اس مرحلے میں اگر کوئی انور اولاقی جیسا دہشت گرد طراز مل جائے تو سالوں کی منزلیں مہینوں میں طے ہو جاتی ہیں۔ ولایت سے اپنے ملک کی طرف دیکھتا جوان اس بھیانک بھنور میں پھنس جاتا ہے جس کا نتیجہ سان برنارڈینو، نیویارک یا فلوریڈا جیسے واقعات کی صورت میں نکلتا ہے۔

امریکا سے نفرت کرنے کی کافی قابل فہم وجوہات بھی ہیں۔ عراق کی جنگ، افغانستان کے ساتھ برتاؤ، شام کے حالات، فلسطین اور ایران میں کردار، پاکستان کے ساتھ ہرجائی پن وغیرہ وغیرہ۔ مگر ایک باشعور، پر امن اختلاف میں اور وحشیانہ دہشت گردی میں جو فرق ہے، وہ ان رویوں کی وجہ سے ہے جو ہماری سماجی اور سیاسی دنیا کا حصہ بن گئے ہیں۔

رحامی، تاشفین ملک، عمر متین، شہزاد احمد اور بہت سارے دہشت گرد پاکستان کے ساتھ اس بنیاد پر منسلک ہیں کہ ہم نے عقلی اور فکری اختلاف رائے کو چھوڑ کر اندھی، جاہلانہ اور تشدد پرست فضا قائم کی ہے۔

ہمارے ہاں قائد کے سارے غدار موت کے حقدار ہیں، مقدس اداروں پر ہر جائز تنقید بھی را کی ایجنٹی ہے، مذہبی رسوم و رواج سے معمولی سا بھی اختلاف کفر ہے اور معاشرتی رجحانات سے انکار مکمل بے غیرتی۔

اگر کوئی آپ سے اختلاف کرے تو یہودی سازش، میڈیا آپ کو نہیں بتائے گا، شیطان آپ کو روکے گا، لفافہ صحافی، بکاؤ اینکر، جھوٹے تجزیہ کار، فاشسٹ لبرل جیسے مجرب نسخہ ہائے جفا موجود ہیں۔

اور پھر سازشی نظریات کا جوالا مکھی۔ انجینیئر آپ کو لاکھ بتائے کہ پریشر کی حالت میں لوہا جلدی پگھلتا ہے اور تیل زیادہ گرم ہو جاتا ہے مگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے لوہے کا عام جہاز کے تیل سے پگھلنا ناممکن ہے کیوں کہ ایک گمنام محقق نے ایک خفیہ تحقیق سے ثابت کیا ہے۔

زلزلہ پیمائی کے ماہر جتنی مرضی دلیلیں دیں، مگر تان اسی خفیہ ہتھیار پر ٹوٹے گی جو امریکا کی ایک خفیہ ایجینسی نے بنایا تھا اور جس کی اطلاع صرف چیچہ وطنی کے ہائی اسکول کے استاد کو دی تھی۔

پولیو والے قطروں پر سارے ڈاکٹر قسمیں کھا لیں، مگر بات مانی جائے گی اس آٹھویں پاس مولوی کی جس کو شاید ویکسین کی اسپیلنگ بھی نہ آتی ہوگی۔

بات کچھ سیاست کی بھی ہے، کچھ تہذیبی تصادم اور کچھ ہمارے رویوں کی بھی۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ایک ایسی بازی ہے جس میں انسانی جان کی قیمت شطرنج کے پیادوں سے زیادہ نہیں۔ اصل ہتھیار نظریہ پھیلانے والے وہ آلات ہیں جو ہماری عام زندگیوں میں گھس چکے ہیں۔

رحامی کو پیدا کرنے والی وہ جنگیں بھی ہیں جن کو ایک عالمی طاقت اپنے مقاصد کے لیے برپا کرتی ہیں۔ عمر متین کے ذہنی اختلاج کی تشخیص میں وہ مباحث بھی ہیں جو ہم لوگ اپنی دوغلی زندگیوں میں اپناتے ہیں۔

مگر ان کی تشدد پسندی میں ان سازشی نظریات کا بھی ہاتھ ہے جو ہم لوگ کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر ڈرائنگ رومز میں سجا دیتے ہیں۔ یہ پیسے، نظریے، معاشرے اور مفادات کی ایک جنگ ہے جس میں ہر چیز بکتی ہے اور ہر چیز ہی پھٹتی ہے۔

اگر اس جنگ کو روکنا ہے تو اس بیانیے کو توڑنا ہوگا، ان رویوں کو بدلنا ہوگا اور ان سیاسی حقیقتوں کو جانچنا ہوگا جو رحیمی جیسے پیادہ پے در پے میدان میں بھیج رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں