آج کل اختصار کا دور ہے اور طوالت کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ گفتگو ہو، تحریر ہو، کلام ہو، کھانا پینا ہو، اوڑھنا بچھونا ہو، کھیل ہو یا پھر چاہے محض جینا ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کام، ہر عمل دن بدن مختصر تر ہوتا جا رہا ہے۔

ٹیکنالوجی کی بھی تمام توجہ ’اسمارٹ‘ ڈیوائسز اور پروگرامز کی تیاری پر مرکوز ہے اور کوشش اس بات کی ہو رہی ہے کہ ’لامحدود‘ کو ’مختصر ترین‘ شکل دی جا سکے۔ اس ضمن میں شارٹ کٹس کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے اور لوگوں کا مزاج بھی بدل رہا ہے۔

جب کوئی کام کسی پر آن پڑتا ہے تو وہ اپنی تمام تر توجہ، محنت، لگن، وسائل اور نیت اس کام کے شارٹ کٹ کی تلاش میں صرف کر دیتا ہے۔ انجام تو خدا جانے، لیکن کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شارٹ کٹ کے بجائے اگر نارمل کٹ کا استعمال کیا جائے تو معاملہ بہت جلدی اور بہتر طریقے سے نمٹ سکتا ہے۔

مگر کیا کیجیے اس گمان کا، جو لوگوں کے اذہان پر مکڑی کے جالے کی طرح چھایا ہے کہ ہر کام کا کم از کم ایک عدد شارٹ کٹ تو موجود ہے۔ اور اسی مخصوص شارٹ کٹ کی تلاش میں بھی لوگ شارٹ کٹ استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔

ایسی ہی کچھ بحث آج کل سیاسی حلقوں میں مقبول ہے۔ مذہبی بنیادوں پر مسلمان اور کافر سرٹیفیکیٹ جاری کیے جانے کا رواج تو پہلے سے ہی رائج تھا۔ اب پریس کانفرنس، ٹی وی پروگرام، اخباری بیانات وغیرہ میں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ جاری اورمنسوخ کیے جا رہے ہیں۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر جو شخص جتنی شد و مد سے دعوی کرتا ہے، اس کا مدعا اتنا ہی معتبر بن جاتا ہے اور لوگ اس پر سرعت سے یقین بھی کرنے لگتے ہیں۔

پڑھیے: حب الوطنی کی قیمت

اس تمام تر مشقت کو سیاسی کامیابی کا شارٹ کٹ گردانا جارہا ہے۔ چاہے اپنے مخالف کی مقبولیت کو ضرب لگانی ہو، اسے منظر سے ہٹانا ہو یا اپنے آپ کو پردہء سیمیں پر واضح کرنا مقصود ہو، یہ عمل نسخہء کیمیا قرار پا چکا ہے۔ ان سرٹیفیکیٹس کے اجراء اور منسوخی نے نتائج کے حصول میں بے شمار آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ ان سرٹیفیکیٹس کا بنیادی مقصد محض مخصوص مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے، ان کی آڑ میں من چاہے نتائج حاصل کرنا ہے، جس کا حقیقت سے تعلق ہونا کچھ ضروری بھی نہیں۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو شخص کسی کو محب الوطن ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر رہا ہوتا ہے اس کا اپنا سرٹیفیکیٹ کچھ عرصہ قبل پہلے ہی ایکسپائر ہو چکا ہوتا ہے۔ مگر معاشرے کی ’شارٹ ٹرم میموری‘ کا فائدہ اٹھا کر بند دکان سے بھی کاروبار کامیابی سے چلا لیا جاتا ہے۔

نتیجے میں ایسی صورتحال معصوم عوام کے لیے گومگو کا باعث بننے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی اور موقع پرست اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جھوٹ کی عمر مزید طویل کر لیتا ہے۔

حب الوطنی ایک ایسا موضوع ہے جو بلاواسطہ جذبات سے منسلک ہوتا ہے۔ انسان نے اپنے تئیں اس کی پہچان کے لیے مختلف پیمانے اور کسوٹیاں ایجاد کر رکھی ہیں جن پر پرکھ کر وہ اچھے اور برے کو علیحدہ بھی کرتا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حب الوطنی کی تعریف ہے کیا؟

’وطن سے محبت‘ تو خیر اس کے لفظی معنی ہیں جو بذات خود جس قدر واضح ہیں، اس کے برعکس کاریگروں نے ان کی عملی توجیح اتنی ہی مبہم بنا دی ہے۔ اسی ابہام کی وجہ سے اب عرف عام میں اس کی بے شمار تعریفیں موجود ہیں۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں کوئی ایک واضح تشریح کرنا، جس پر تمام لوگ یقین بھی کریں، تقریباً ناممکن ہے۔

لہٰذا معاملاتِ زندگی چلانے کی خاطر اس کام میں تھوڑی رعایت پیدا کی جاتی ہے۔ جس کے تحت کچھ لوگ قدرتی طور پر محب وطن قرار پاتے ہیں۔ وہ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ جو چاہے کریں ان کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اسی طرح کچھ لوگ بغیر کسی قصور کے، وطن دشمن کہلائے جاتے ہیں اور تمام عمر ترازو کے پلڑے میں تلتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔

پڑھیے: پاکستانی سنیما میں 'حب الوطنی' کا کھیل

اس دو طرفہ رویے کی وجہ سے محرومی کا احساس جنم لیتا ہے۔ احساس براہ راست انسانی نفسیات سے وابستہ ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر نفسیاتی مسائل کا ازالہ ایک دشوار کام ہوتا ہے۔

حب الوطنی کی تقسیم اس دراڑ سے شروع ہوتی ہے جو ایک ہی قانون کے دو طرح سے استعمال کے نتیجے میں وجود پاتی ہے، یعنی دو مختلف افراد کے لیے دو مختلف تشریحات۔ برصغیر میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ حیثیت دیکھ کر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر قانون کو لاگو کرنا ہے یا نہیں اور اگر کرنا ہے تو کس طرح، کس حد تک۔ یا پھر حیثیت کے فرق سے یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ کون ملک کا زیادہ وفادار ہے۔

مثلاً ایک عام آدمی جب کسی بیرون ملک ویزا کے لیے درخواست دیتا ہے تو آج کل اس سے ’کریکٹر سرٹیفیکیٹ‘ طلب کیا جاتا ہے جو کہ پولیس جاری کرتی ہے (ویسے، سمجھداروں کے لیے تو بات یہیں پر ہی ختم ہو جاتی ہے، مگر) اس عمل کو خواہ کتنا ہی کمپیوٹرائزڈ بنا لیجیے، ایک عام آدمی کی شکل دیکھتے ہی پولیس کی ’حس طلب‘ جاگ اٹھتی ہے اور ’لین دین‘ کی پابندی کے باوجود حسب توفیق نذرانے وصول کر کے سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔

چاہے عام آدمی نے شناختی کارڈ بنوانا ہو، پاسپورٹ بنوانا ہو، کہیں پرائیوٹ ملازمت کرنی ہو، بینک اکاؤنٹ کھولنا ہو، کرائے پر مکان لینا ہو، پینشن کا کیس منظور کروانا ہو یا کسی سرکاری دفتر میں درخواست دینی ہو، غرضیکہ عام آدمی نے کوئی بھی قانونی کام کرنا ہو اسے ہر مرحلے پرتکلیف دہ حد تک کڑی کسوٹی سے گزر کر پہلے اپنی شناخت اور حب الوطنی ثابت کرنی پڑتی ہے، پھر کہیں جا کے بات آگے بڑھتی ہے۔

دوغلا مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ آئے روز ہمارے مختلف ارباب اختیار طویل عرصے کے لیے بیرون ملک قیام پذیر ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ کاروباری، کچھ تفریحی اور کچھ ’مجبوری‘ کے دورے پر ہوتے ہیں جس دوران لامتناہی عرصے کے لیے وہ شخص ملک سے دور رہتا ہے۔

بیرون ملک رہ کر، جائیداد بنا کر، کاروبار جما کر، اپنے اور بچوں کے لیے غیر ملکی شہریت حاصل کر کے جب وہ واپس آکر کسی اہم عہدے، خاص کر سرکاری عہدے پر، براجمان ہوتا ہے، تو کسی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ اس کی حب الوطنی کا موجودہ ’ لیول‘ چیک کر سکے۔ آخر وہ انسان ہی تو ہے اور دیگر عام انسانوں کی طرح قانون سے مستثنیٰ بھی نہیں۔

ایک طویل عرصہ ملک سے باہر گزارنے کے کچھ اثرات تو اس شخص کی نفسیات پر بھی مرتب ہوتے ہوں گے۔ خاص کر جب بیرون ملک قیام کے دوران ذاتی کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے تو کاروباری سوچ یہ کہتی ہے کہ اپنے ملک سے دلچسپی ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کرنا ایک عام فہم بات ہے۔

تو ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ اپنے ملک کے اہم ترین عہدے، بلا تحقیق و تصدیق، ایسے لوگوں کے حوالے کر دیے جائیں؟ کیونکہ ایسے افراد کی حب الوطنی ماپنے کا نہ تو کوئی پیمانہ ہے اور نہ ہی کسی میں جرات۔

پڑھیے: کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

اب ہر بندہ تو ان کی طرح ’خاص‘ نہیں ہوتا، وہ تو قدرت کی جانب سے نوازے گئے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر شاید ان کی حب الوطنی کی جانچ تو درکنار، ان پر شک کرنا بھی مناسب نہیں۔ ہاں! عوام کو اگرمعاملاتِ زندگی کے قدم قدم پر کڑی جانچ پڑتال کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں بار بار اپنے آپ کو محب وطن پاکستانی ثابت کرنا پڑتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے، یہ اقدامات تو ان کی بھلائی کے لیے ہی اٹھائے گئے ہیں۔

مگر پھر بھی، اگر خدانخواستہ عوامی اعتراض کا دباؤ بڑھ جائے یا مطالبے میں شدت آ جائے تو اس مسئلے سے صحیح سلامت باہر نکلنے کا ایک شارٹ کٹ موجود ہے۔

مشورہ یہ ہے کہ حجت تمام کرنے کے لیے اور عوام میں محرومی کا تاثر دور کرنے کے لیے، ایک ضابطہ بنا دیا جائے کہ جو شخص چھ ماہ سے زیادہ مدت بیرون ملک گزار کر آئے تو اسے کوئی بھی سرکاری یا عوامی عہدہ دینے سے پہلے حب الوطنی کا ایک مفت شارٹ کورس کروا دیا جائے، چنانچہ اس فرد سے متعلق معمولی سے معمولی شک بھی باقی نہ رہے۔ اور ہاں! ایک عدد سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا جائے تاکہ سند رہے کہ بندہ پورا محب وطن ہے اور ملک و قوم کی خدمت کے لیے مکمل اہل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

ممتاز حسین Sep 27, 2016 05:29pm
واہ! بہترین، عمدہ تحریر
نیّر حیات قاسمی Sep 28, 2016 06:37am
@ممتاز حسین ممتاز حسین صاحب، آپ کی توجہ کے لیے بہت شکریہ