دنیا میں پہلے ایسے بچے کی پیدائش ہوئی ہے جس کے لیے 'تین افراد' کی تولیدی صلاحیت استعمال کی گئی۔

بی بی سی کے مطابق اس بچے میں ماں اور باپ کا معمول کا ڈی این اے موجود ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ڈونر کے جنیاتی کوڈ کا کچھ حصہ بھی اس کے جسم کا حصہ ہے۔

امریکی ڈاکٹروں نے اس تیکنیک کو آزما کر یقینی بنایا کہ بچہ اس جنیاتی عارضے سے محفوظ ہو جو اس کی اردن سے تعلق رکھنے والی ماں کی جینز میں موجود ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام طبی دنیا کے نئے عہد کی جانب قدم ہے اور اس سے نایاب جنیاتی عارضوں کے شکار دیگر خاندانوں کی مدد کی جاسکے گی۔

مگر انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ اس نئی اور متنازع ٹیکنالوجی پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔

اس تیکنیک میں مائی ٹو کانڈریل (خبطی ذرے) کا عطیہ ڈونر سے حاصل کیا جاتا ہے، یہ خبطی ذرے وہ ننھے ڈبے ہوتے ہیں جو لگ بھگ جسم کے ہر اس خلیے میں موجود ہیں جو خوراک کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنے کا کام کرتے ہیں۔

کچھ خواتین میں مائی ٹو کانڈریل کی جنیاتی کمی ہوتی ہے جو کہ ان کے بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے، ایسا ہی معاملہ اردن سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ساتھ بھی تھا، اسے Leigh سینڈروم بھی کہا جاتا ہے جو کہ بچے کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

امریکی ٹیم نے اس تیکنیک کو آزمانے کے لیے میکسیکو کا سفر کیا تھا کیونکہ وہاں اس پر پابندی کے قوانین موجود نہیں تاکہ لیبارٹری میں باپ کی مدد سے ماں کو حاملہ کرنے سے پہلے اس کے اندر مائی ٹو کانڈریل کی مرمت کی جاسکے۔

اس تیکنیک کے لیے ایک صحت مند ڈونر سے صحت مند مائی ٹو کانڈریل کا عطیہ لیا گیا جس کے نتیجے میں اس بچے کی پیدائش ہوئی جس کے ڈی این اے کا محض 0.1 فیصد حصہ ڈونر پر مشتمل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں