غربت، بیروزگاری، ناخواندگی اور نومولود بچوں کی اموات کے خلاف پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ جنگ پر زور دینے کے ایک دن کے بعد ہی نریندرا مودی نے اپنا تازہ ترین یوٹرن لیا ہے، اور عندیہ دیا ہے کہ وہ پانی کو پاکستان — ایسا خطہ جس میں انسانوں کی اکثریت انتہائی کم آمدنی پر گزارا کرتی ہے، اور گزر بسر کے لیے مکمل طور پر زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں پر منحصر ہے — کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

ششماہی انڈس واٹر کمشنرز اجلاس معطل کرنے، سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق قرار پانے والے تین مغربی دریاؤں پر آبی اور توانائی منصوبوں کی تعمیرات میں تیزی لانے، اور سفاکانہ انداز میں اعلان کرنے کہ "پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے" سے لگتا ہے کہ نریندرا مودی ایک بار پھر ہندوستان کے اندر اپنی سیاسی حمایت میں اضافے کے لیے پاکستان کے خلاف 'سخت' نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ اپنے ان اقدامات سے خطے کو مزید غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔

پڑھیے: 'سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جنگ تصور کی جائے گی'

سندھ طاس معاہدہ ساڑھے پانچ دہائیوں اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں ہونے کے باوجود قائم رہا ہے۔ معاہدے کا قائم رہنا، دونوں ملکوں کا اس کی شرائط کی پابندی کرنا، اور اس عرصے کے دوران عالمی ثالثی کو بار بار قبول کرنا وہ کامیابیاں ہیں جنہیں کسی بھی ہندوستانی یا پاکستانی رہنما کو نہیں چھیڑنا چاہیے، خطرے میں ڈالنا تو دور کی بات ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں کچھ انتہاپسند حلقوں کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دینے کے انتہائی ناخوشگوار اور مکمل طور پر غیر قانونی مطالبے کے جنم لینے سے قبل سندھ طاس معاہدہ ہی وہ فریم ورک تھا جس کے تحت پاکستان اور ہندوستان کے درپیش نئے موسمیاتی اور آبی مسائل کا حل دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد یقینی بناتے ہوئے ہونا تھا۔

نریندرا مودی کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے نئے طریقوں کی تلاش نے اُس خطے میں نئی غیر یقینیوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جو پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے اور جو آنے والی دہائیوں میں پانی کے شدید بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔

پاکستان کو ہندوستانی خواہشات کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن لینے کا کہنے کی کوشش کرنے کے دوران نریندرا مودی نے اس چیز کو بڑھاوا دیا ہے جو ان دونوں ممالک کے دوران ایک اور کبھی نہ ختم ہونے والا تنازع بن کر رہ جائے گی۔

پاکستانی پالیسی سازوں کی جانب سے ردِعمل محتاط اور سمجھداری پر مبنی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ بین الاقوامی، پاکستانی اور ہندوستانی ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ہندوستان کے پاس نہ ہی ایسے وسائل ہیں کہ وہ فوری اور مصنوعی طور پر پاکستان کی جانب پانی کا بہاؤ روک سکے، اور نہ ہی وہ اپنی زرعی معیشت کو نقصان پہنچائے بغیر ایسا اگلے کچھ عرصے کے لیے کر سکے گا۔ لہٰذا پاکستانی حکام کی جانب سے جلد بازی اور جذباتیت پر مبنی کوئی بھی ردِعمل معاملات کو صرف خراب کرے گا۔

مزید پڑھیے: ہندوستان سندھ طاس معاہدہ کیوں منسوخ نہیں کرسکتا

جو چیز پاکستان کو کرنی چاہیے وہ یہ کہ پاکستان آبی ماہرین، ماہر بین الاقوامی ثالثوں اور ورلڈ بینک کے تجربہ کار مذاکرات کاروں کی ایک ٹیم بنائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان ہندوستان کی کسی بھی چال کا فوری اور مؤثر جواب دے سکے۔

کشن گنگا اور بگلیہار ثالثیوں سے جو تجربہ حاصل ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ بیکار پالیسیوں، فیصلہ سازی کی قوت سے محروم قیادت، اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر کمزور نمائندگی سے پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حقوق مکمل طور پر حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔

اگر نریندرا مودی غربت کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اگر وہ اس ملک کا پانی روکنا چاہتے ہیں، تو پاکستان کو قانونی اور سفارتی سطح پر اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 ستمبر 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں