کشمیری نوجوانوں پر چھروں کا قہر

کشمیری نوجوانوں پر چھروں کا قہر

احمر خان

مقبوضہ کشمیر میں ایک اور دن ابھرا ہے اور جنت نظیر وادی کے مختلف علاقوں سے لوگ جلدی میں سری نگر میں واقع شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال (ایس ایم ایچ ایس) کا رخ کر رہے ہیں۔ امراض چشم کا وارڈ بھر چکا ہے جہاں زیادہ تر آہنی چھروں سے زخمی ہونے والے افراد موجود ہیں۔

ان زخمیوں کے چہروں اور دھڑوں پر چھروں کے زخم موجود ہیں۔ پیلٹ گن (آہنی چھرے فائر کرنے والی بندوق) کے اندھا دھند استعمال سے بینائی کا ضیاع کشمیر کے شہریوں پر ہندوستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے بربریت کی ایک تصویر پیش کر رہا ہے۔

ہندوستانی پولیس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پیلٹ گن ایک غیر مہلک ہتھیار ہے لیکن کشمیر بلائنڈ اسپاٹ کیمپین (کے بی ایس سی) کے مطابق اس گن کے استعمال کے نتیجے میں، جو کہ عام طور پر جانوروں کے شکار کے لیے مختص سمجھی جاتی ہے، 69 انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔

اگرچہ کہ یہ ہتھیار ہمیشہ جان لیوا ثابت نہ بھی ہو، مگر اپنا شکار بننے والے پر یہ ہتھیار زندگی بھر کے لیے ایک گہرا اثر چھوڑ جاتا ہے۔

ہندوستانی حکومت کے مطابق اس ہتھار سے 500 لوگ زخمی ہو چکے ہیں، ان میں زیادہ تر افراد کی آنکھوں کی ساخت کو کئی طرح سے نقصان پہنچا ہے جس کے لیے کئی سرجریز اور طویل المدت طبی علاج مطلوب ہے۔

مگر کے بی ایس سی کی اطلاعات کے مطابق چھروں سے زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 4,500 سے بھی زیادہ کے ساتھ مذکورہ تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

تنازعے کے ابتدائی صرف 32 دنوں میں ہی ہندوستانی فوج نے 13 لاکھ چھرے استعمال کیے تھے۔

چوں کہ پیلٹ گنز اندھے پن کی وجہ بن سکتی ہیں لہٰذا ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے پیلٹ گنز پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

کشمیر میں حالیہ بدتر حالات کی شدت کو آہنی چھروں کے زخم بخوبی واضح کر رہے ہیں — تصویر احمر خان
کشمیر میں حالیہ بدتر حالات کی شدت کو آہنی چھروں کے زخم بخوبی واضح کر رہے ہیں — تصویر احمر خان

ایس ایم ایچ ایس میں موجود ڈاکٹرز کافی تھکے نظر آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ "ہم متعدد شفٹس میں دیر تک کام کر رہے ہیں۔ کرفیو کی وجہ سے طبی عملے کی نقل و حرکت بھی محدود ہو چکی ہے، ہمیں کوئی پختہ اندازہ نہیں کہ ان میں سے کتنے زخمی افراد اپنی بینائی واپس حاصل کر پائیں گے۔"

مظاہرین کی آنکھوں کو نشانہ بنانا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے، حالانکہ باضابطہ طریقہء کار کے مطابق مظاہرین کو کمر سے نیچے ہدف بنانا ہوتا ہے۔

ہسپتالوں میں عمومی طور زخمی بچے بھی نظر آتے ہیں۔ ہندوستانی روزنامے دی ہندو کے مطابق آہنی چھروں سے زخمی ہونے والوں میں سے 14 فیصد کی عمریں 15 برس بھی کم تھی — تصویر احمر خان
ہسپتالوں میں عمومی طور زخمی بچے بھی نظر آتے ہیں۔ ہندوستانی روزنامے دی ہندو کے مطابق آہنی چھروں سے زخمی ہونے والوں میں سے 14 فیصد کی عمریں 15 برس بھی کم تھی — تصویر احمر خان

اگر اب بھی کسی شک کی گنجائش رہ گئی ہے تو چلیے ناصر کی مثال لیتے ہیں۔ وہ قریب پانچ برس کا لڑکا ہے جسے میں نے اس ہسپتال کے بستر پر لیٹا پایا۔ اس کی بائیں آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اس کے والد بتاتے ہیں کہ ہندوستانی سکیورٹی اہلکار نے ان کے بیٹے کو پکڑا اور اس کی بائیں آنکھ میں لوہے کی تیز دھار والی چیز گھسا دی۔

اہلکاروں نے ناصر پر انہیں گالیاں دینے کا الزام لگایا لہٰذا ان کے نزدیک ناصر اس کا مکمل طور پر مستحق تھا۔ میں نے جب پوچھا کہ کیا وہ ہندوستانی فوج پر پتھر پھینک رہا تھا تو اس کے والد نے جواب دیا کہ ان کا گھرانہ صرف ان کے پاس سے گزر ہی رہا تھا۔

اس ہسپتال میں ناصر کی کہانی کے علاوہ کئی دیگر کہانیاں بھی ہیں۔

میں نے اپنے کیمرا کی آنکھ سے چند کہانیوں کو قید کرنے کی کوشش بھر کی ہے۔

ہندوستانی فوج کی گائیڈ لائنز کے مطابق مظاہرین پر پیلٹ گنز کا استعمال کمر سے نیچے سے کیا جانا چاہیے مگر اس کے برعکس زیادہ تر پیلٹ گن کے شکار افراد کو کمر کے اوپر نشانہ بنایا گیا تھا — تصویر احمر خان
ہندوستانی فوج کی گائیڈ لائنز کے مطابق مظاہرین پر پیلٹ گنز کا استعمال کمر سے نیچے سے کیا جانا چاہیے مگر اس کے برعکس زیادہ تر پیلٹ گن کے شکار افراد کو کمر کے اوپر نشانہ بنایا گیا تھا — تصویر احمر خان

ڈاکٹرز کو اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں کہ ان میں سے کتنے افراد مکمل طور پر صحتیاب ہو پائیں گے — تصویر احمر خان
ڈاکٹرز کو اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں کہ ان میں سے کتنے افراد مکمل طور پر صحتیاب ہو پائیں گے — تصویر احمر خان

ایسے زخم اس گن کا شکار بننے والوں کو غالباً زندگی بھر کے لیے خوفزدہ رکھنے کے لیے پہنچائے گئے ہیں — تصویر احمر خان
ایسے زخم اس گن کا شکار بننے والوں کو غالباً زندگی بھر کے لیے خوفزدہ رکھنے کے لیے پہنچائے گئے ہیں — تصویر احمر خان

پیلٹ گن کا شکار بننے والوں میں ٹین ایجرز بھی شامل ہیں — تصویر احمر خان
پیلٹ گن کا شکار بننے والوں میں ٹین ایجرز بھی شامل ہیں — تصویر احمر خان

پیلٹ گن کے ایک فائر سے 600 چھروں کا بادل بن جاتا ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے — تصویر احمر خان
پیلٹ گن کے ایک فائر سے 600 چھروں کا بادل بن جاتا ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے — تصویر احمر خان

کشمیر میں موجود ہر ہسپتال اپنی پوری استعداد کے ساتھ  کام کر رہا ہے — تصویر احمر خان
کشمیر میں موجود ہر ہسپتال اپنی پوری استعداد کے ساتھ کام کر رہا ہے — تصویر احمر خان

آنکھوں کو زخم پہنچنے کی وجہ سے پیلٹ گنز کے استعمال پر بڑی سطح پر مذمت سامنے آئی — تصویر احمر خان
آنکھوں کو زخم پہنچنے کی وجہ سے پیلٹ گنز کے استعمال پر بڑی سطح پر مذمت سامنے آئی — تصویر احمر خان

اگر کسی کے ٹھیک ہونے کی تھوڑی بھی امید باقی ہے تو اس کے لیے بھی انتہائی زیادہ طبی توجہ کی ضرورت ہے — تصویر احمر خان
اگر کسی کے ٹھیک ہونے کی تھوڑی بھی امید باقی ہے تو اس کے لیے بھی انتہائی زیادہ طبی توجہ کی ضرورت ہے — تصویر احمر خان

ایک والد اپنے بیٹے کی آنکھوں میں قطرے ڈال رہا ہے — تصویر احمر خان
ایک والد اپنے بیٹے کی آنکھوں میں قطرے ڈال رہا ہے — تصویر احمر خان

اگر کسی کی آنکھوں کے بجائے دھڑ کو نشانہ بنایا گیا ہے تو وہ نسبتاً خوش قسمت ہی رہا ہے — تصویر احمر خان
اگر کسی کی آنکھوں کے بجائے دھڑ کو نشانہ بنایا گیا ہے تو وہ نسبتاً خوش قسمت ہی رہا ہے — تصویر احمر خان

زیادہ تر زخمی ہونے والے نوجوان ہیں — تصویر احمر خان
زیادہ تر زخمی ہونے والے نوجوان ہیں — تصویر احمر خان

زخمیوں کے گھر والے اپنے پیاروں کا خیال رکھنے کی غرض سے دن کے ہر پہر ہسپتال میں موجود رہتے ہیں — تصویر احمر خان
زخمیوں کے گھر والے اپنے پیاروں کا خیال رکھنے کی غرض سے دن کے ہر پہر ہسپتال میں موجود رہتے ہیں — تصویر احمر خان

ہسپتال میں موجود ایک زخمی کی ماں اپنے بیٹے کی مدد کر رہی ہے — تصویر احمر خان
ہسپتال میں موجود ایک زخمی کی ماں اپنے بیٹے کی مدد کر رہی ہے — تصویر احمر خان


یہ مضمون ابتدائی طور پر 28 ستمبر 2016ء کو شائع ہوا۔


مزید تصاویر

سری نگر سے ایک خط: ظلم کی رات کب ختم ہوگی؟

کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں


احمر خان کشمیر میں مقیم ایک فری لانس فوٹو گرافرہیں۔ وہ کرسچن سائنس مانیٹر کے لیے جنوبی ایشیا کو کور کرتے ہیں، جبکہ ان کا کام الجزیرہ، بی بی سی، گیٹی امیجز اور فارین پالیسی میں بھی شایع ہو چکا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔