اسلام آباد: سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) نے اپنی تیسری رپورٹ بھی تیار کرلی اور اس میں میں گوادر کی بندرگاہ کے مستقبل پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں گوادر بندرگاہ پروجیکٹ کو ’ناکام‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ برہان ہکلا ، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، کوئٹہ، سہراب، بسما، پنجگور، تربت اور گوادر سے گزرنے والے سی پیک کے 1674 کلو میٹر طویل مغربی روٹ پر حکومت کی توجہ اتنی نہیں جتنی مشرقی روٹ پر ہے۔

کمیٹی کے چیرمین سینیٹر تارج حیدر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں مزید کئی سفارشات سامنے آئیں جنہیں حتمی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا اور پھر اسے سینیٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک منصوبہ، حکومت اورملٹری قیادت میں کشیدگی کا باعث؟

انہوں نے کہا کہ حکومت گوادر بندگاہ کو جلد از جلد مکمل کرنے کے بجائے کراچی کی بندرگاہ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گوادر پورٹ کی تکمیل کے حوالے سے حکومتی دعوے محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق ’کراچی پورٹ پر پہلے ہی 4 گہرے سمندر کی برتھ جو 16 میٹر گہری ہیں تعمیر ہوچکی ہیں جبکہ مزید چھ تکمیل کے مراحل میں ہیں اور مشرقی روٹ پر چھ رویہ موٹر وے کی تکمیل سے چین اور پاکستان کے اندر چلنے والا سارا تجارتی ٹریفک قدرتی طور پر مشرقی روٹ پر آجائے گا اور کراچی بندرگاہ کی ڈیپ سی برتھوں کو استعمال کرے گا‘۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’متفقہ مغربی روٹ بے سود رہے گا کیوں کہ یہاں صرف دورویہ سڑک تعمیر کی جارہی ہے جبکہ گوادر پورٹ میں ڈیپ سی برتھوں کی تعمیر اب تک محض پری فیزیبلٹی مرحلے میں ہے‘۔

سینیٹ کمیٹی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اس بات کے کئی اشارے موجود ہیں کہ مغربی روٹ کو اس طرح ترجیح نہیں دی گئی جیسا کہ رواں برس 15 جنوری کو وزیر اعظم نواز شریف نے عوام سے وعدہ کیا تھا جبکہ مشرقی روٹ اور پشاور کراچی ریلوے مین لائن 1 پر کام انتہائی تیزی سے جاری ہے اور مشرقی روٹ پر چھ رویہ موٹر وے کی تعمیر قبل از وقت ہی متوقع ہے۔

مزید پڑھیں:گوادر سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہے، نواز شریف

رپورٹ کے مطابق ’خصوصی کمیٹی نے اس بات پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا کہ اب تک چین اور پاکستان کی مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کی جانب سے کیے جانے والے بڑے فیصلوں کو خفیہ رکھا گیا ہے اور یہ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ جے سی سی نے متفقہ مغربی روٹ کو اپنے پروگرام سے نکال دیا تھا اور کمیٹی کے سامنے آنے والے زمینی حقائق سے اس اندیشے کو مزید تقویت ملی جبکہ کمیٹی نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کو ہدایت بھی کی کہ جے سی سی کے سمجھوتے کی یادداشت اور اجلاس کی تفصیلات کمیٹی کے ساتھ شیئر کی جائیں‘۔

کمیٹی کے چیئرمین نے بتایا کہ مغربی روٹ پر ڈیرہ اسماعیل خان (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان سے اگے کوئی کام مکمل نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’برہان – ڈیرہ اسماعیل خان سیکشن کے لیے 124 ارب روپے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم اسے پنجاب پر خرچ کیا جارہا ہے کیوں کہ یہ سیکشن صوبہ پنجاب میں ہی واقع ہے‘۔

کمیٹی نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب کے درمیان پہاڑ کی شکل میں موجود رکاوٹ کا بھی نوٹس لیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی نے موٹر وے کی تعمیر کے حوالے سے اس بڑی رکاوٹ کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا۔

کمیٹی نے سوال کیا کہ اس رکاوٹ کا انجینئرنگ میں کیا حل ہے؟ کیا کوئی متبادل موجود ہے؟ اور اگر کوئی حل ہے تو اسے عملی جامعہ پہنانے میں کتنا وقت لگے گا؟

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر خدشات

کمیٹی کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ سی پیک کے روٹ کو کسی ایک رکاوٹ کی وجہ سے متقفہ راستے سے نہیں ہٹایا جاسکتا اور نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کو ہدایت کی کہ جلد از جلد اس رکاوٹ کو دور کرکے موٹر وے کی تعمیر کا واضح پلان پیش کرے۔

کمیٹی نے وزارت ریلوے کی جانب سے شروع کیے جانے والے ان منصوبوں کو سراہا جو سی پیک کا حصہ نہیں تھے اور کہا کہ ’کمیٹی وزارت ریلوے کی کارکردگی کو سراہتی ہے کیوں کہ اس نے اپنے بل بوتے پر ریلوے لائن کی تعمیر شروع کی جو پشاور کو گوادر سے ملائے گی‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان تا گوادر اس مجوزہ ریلوے لائن کی الائنمنٹ متفقہ مغربی راہداری کے ساتھ ہونی چاہیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت ریلوے آزادی سے پہلے کے ریلوے ٹریکس کی تجدید کا بھی منصوبہ بنارہی ہے اور ان سیکشنز پر نئے ٹریکس بچھائے جائیں گے جہاں پہلے ٹریکس موجود نہیں تھے۔

کمیٹی نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ مغربی روٹ پر کسی نئے پاور پلانٹ کا منصوبہ نہیں بنایا گیا اور کہا کہ ’مغربی روٹ کی ایک جانب 870 میگا واٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے اور پھر 1700 کلو میٹر بعد 300 میگا واٹ کا تھرمل گوادر پاور پلانٹ ہے‘۔

کمیٹی نے کہا کہ سی پیک میں بڑے پیمانے پر بجلی بنانے والے پاور پلانٹس کی تعمیر شامل ہے تاہم یہ پاور پلانٹس مغربی روٹ سے بہت دور واقع ہیں۔

یہ خبر 29 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں