ہم دنیا کا لوہا کب بنیں گے؟

30 ستمبر 2016
اگر ہمارے لیڈران سیاسی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیے بغیر قومی مفادات میں پالیسیاں بناتے تو ملک کافی آگے نکل چکا ہوتا — اے پی فائل فوٹو
اگر ہمارے لیڈران سیاسی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیے بغیر قومی مفادات میں پالیسیاں بناتے تو ملک کافی آگے نکل چکا ہوتا — اے پی فائل فوٹو

دیکھا جائے تو 69 برس کا عرصہ کسی بھی ملک کو پروان چڑھنے کے لیے بہت ہوتا ہے۔ ان 69 برسوں میں ہم ترقی و خوشحالی کے کافی مراحل طے کر سکتے تھے لیکن افسوس کہ ہم اس مسابقتی دنیا میں کافی پیچھے رہ گئے۔

سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کے ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد جن ممالک نے آزادی حاصل کی وہ آج ہم سے کئی گنا آگے نکل چکے ہیں۔

پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک یہاں بہت سی حکومتیں آئیں اور گئیں، جمہوری حکومت بھی دیکھی تو آمریت بھی لیکن پاکستان میں کوئی ایسا خاطر خواہ نظام نافذ ہی نہ ہو پایا جس نے ملک کے غریب عوام کو فائدہ پہنچایا ہو۔

افسوس کہ 69 برس بیت جانے کے بعد بھی اس قوم کو معیاری تعلیم اور صحت کا نظام اور بہت سی بنیادی ضروریات حاصل نہیں ہو پائیں۔ کتنے ادوار گزر گئے لیکن غریب عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔

پڑھیے: 6 کروڑ غریبوں کے ٹیکس چور سیاستدان

ہماری حکومتیں انسانی ترقی (ہیومن ڈویلپمنٹ) اور اداروں کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہسپتال سے لے کر تعلیمی اور دیگر سرکاری اداروں میں عام آدمی دھکے کھاتا پھرتا ہے اور آخر شکوہ کرے بھی تو کس سے آخر کون ہے سننے والا بس اپنے غصے کو خود پی جاتا ہے۔

ہاں البتہ کسی وزیر یا سیاسی وابستگی رکھنے والا کوئی شخص ان اداروں کا غلطی سے رخ کر لے تو اس کا کام منٹوں سیکنڈوں میں ہو جاتا ہے.

شاید حبیب جالب (شاعر عوام) نے سہی کہا تھا:

حال اب تک وہی ہے فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک وقت وہ بھی تھا کے جب دوسری جنگ عظیم میں جرمنی بری طرح تباہ ہو گیا تھا اور اس وقت جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔

دنیا کے 14 مختلف ممالک بشمول پاکستان جرمنی کو امداد دیتے تھے۔ ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان نے جرمنی کو 20 سال کے لیے 12 کروڑ بطور قرض فراہم کیا تھا جس پر جرمنی چانسلر نے پاکستان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا تھا۔ اور آج تقریباً 50 سال گزر جانے کے بعد صورت حال کچھ یوں ہے کہ جرمنی آج دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور پاکستان اس رینکنگ میں اکتالیسویں نمبر پر ہے۔

پڑھیے: تعصب اور امتیازی سلوک کا معاشی پہلو

معاشی ترقی اور خوش حالی کے لحاظ سے جرمنی (جس کو ہم نے کبھی 12 کروڑ روپے قرض فراہم کیا تھا) آج ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے اور ہندوستان جس کو ہم صبح شام گالیوں سے نوازتے ہیں اور جو کہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا وہ آج معاشی لحاظ سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔

دیکھا جائے تو کسی قوم و ملک کی ترقی اور خوش حالی میں وہاں کی حکومت اور لیڈروں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ لیڈر قوم میں ترقی پیدا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں، اپنے روشن وژن کی بھرپور پیروی کرتے ہیں اور اپنی شخصی عمل سے اپنی قوم کو ایک مثالی شہری کا سبق سکھاتے ہیں۔

لیکن اس ملک کا یہ حال ہے کہ یہاں کے زیادہ تر لیڈر کرپشن، منی لانڈرنگ، اقربا پروری وغیرہ جیسے کاموں میں ملوث ہیں، تو ایسے حکمران لوگوں کے لیے کیا مثال بن پائیں گے؟

یہی وجہ ہے کے ہمارا ملک جسے آج شاید معاشی ترقی اور خوشحالی کے لحاظ سے دنیا میں آگے آگے ہونا چاہیے تھا وہ آج ارباب اقتدار کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے اور بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔

پاکستان کو الله پاک نے بہت سے وسائل سے نوازا جس کے لیے اگر ہماری حکومتیں مناسب پالیسیوں کا انتخاب کرتی تو آج ہمیں امریکی امداد اور آئی ایم ایف کے قرضوں کا سہارا نہ لینا پڑتا اور نہ ہی ان کے ماتحت ہو کر آج اپنی پالیسیوں کو مرتب کرنا پڑتا۔

اگر ہمارے لیڈران اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیے بغیر قومی مفادات میں پالیسیاں بناتے تو یہ ملک کافی آگے نکل چکا ہوتا۔

ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا "یہ قوم دنیا کا لوہا بنے گی" اگرچہ ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے لیکن لوہا بننے کا بھٹو کا خواب اب بھی تعبیر کا منتظر ہے، البتہ دہشت گرد جیسے القاب کا ٹھپا ضرور لگ چکا ہے۔

پڑھیے: کیا پاکستان معاشی انقلاب کے نزدیک ہے؟

لیکن کیا کریں شاید ہمارے حکمران یہ بات سمجھ ہی نہیں پائے کہ دنیا کا لوہا بننے کے لیے قوم کو تعلیم اور خوشحالی فراہم کی جاتی ہے تاکہ آنے والی نوجوان نسل ایک پڑھی لکھی قوم بن کر ابھرے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کے سیاست دان اس بات سے مکمل واقف ہیں کے "نوجوان ملک کا سرمایا ہوتے ہیں" لیکن اس سرمائے کو جب تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ جیسی سہولیات سے دور رکھا جائے گا تو یقینناً پھر ملک میں دہشتگردی، قتل و غارت، نا انصافی، عصمت دری وغیرہ کا کاروبار سر گرم ہوگا۔

تعلیم جیسے زیور جہاں قوم و ملک کی حالت بہتر ہوتی ہے اور جس کی بہت سی مثالیں اس دنیا میں موجود بھی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس قوم کو تعلیم کے زیور سے اس لیے کوسوں دور رکھا کیونکہ شاید انہیں ڈر تھا کے اگر اس قوم میں شعور برپا ہوگیا تو یہ آنے والے وقتوں میں ہمارے ہی گریبانوں تک آن پہنچے گے اور ہمیں ووٹ دینے کے بجائے جوتے ماریں گے۔

پڑھیے: سبسڈیز: غریب نہیں صرف سول سرونٹس کے لیے

ویسے دیکھا جائے تو ہم خود بھی اس دور حاضر کی مشکلات کے قصور وار ہیں۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ہم سب نے بحیثیت قوم اپنے ملک کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا، بلکہ چند مفاد پرست سیاست دانوں اور لیڈروں کی باتوں میں آکر ایک دوسرے سے نفرت، لسانیات، اور تعصّب رکھا۔

ہم شاید بھول گئے کے ہم وہی قوم تھے جس نے 69 برس پہلے جدوجہد کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا کہ جہاں امن اور محبت کے ساتھ زندگی گزار سکیں لیکن آج ہم آپس میں ہی نفرتوں اور دشمنیوں کا شکار ہو گئے ہیں۔

سیاست دانوں اور حکومتوں کی غلطیاں ایک طرف لیکن ہمیں خود بھی اقدامات کرنے پڑیں گے اور شروعات اپنے آپ سے اپنے گھر سے کرنا ہوگی۔

پہلے ہمیں اپنے ذہنوں سے کرپشن، نہ انصافی، بدنظمی، نفرتوں وغیرہ کو ختم کرنا ہوگا تبھی ہم اس ملک کے لیے اچھا سوچ پائیں گے اور پھر سے اپنے حقوق کی جدوجہد کر کے ان نام نہاد لیڈروں سے اور ان کے پیدا کردہ مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گیں۔

تبصرے (0) بند ہیں