کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدر اشرف غنی اور ملک کے سابق جنگجو سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغان امن معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق امن معاہدے پر دستخط کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ طالبان سوچ لیں کہ انھیں کیا کرنا ہے، کیا وہ امن چاہتے ہیں یا جنگ'۔

اس موقع پر افغان دارالحکومت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گیے تھے۔

مذکورہ تقریب میں ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی، حزب اسلامی کے اراکین اور دیگر سیاست دان موجود تھے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا

ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار نے افغان حکومت اور ان تمام افغانیوں کو مبارک باد پیش کی جو امن چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'میں ملک کی آزادی اور استحکام کیلئے دعاگو ہوں، اور یہ کہ ہماری معصوم اور جنگ زدہ قوم کو لڑائی سے نجات ملے اور تحفظ فراہم ہو، اور یہاں اتحاد قائم ہو'۔

22 ستمبر کو افغانستان میں صدر اشرف غنی کی انتظامیہ اور حزب اسلامی کے وفد نے امن معاہدے پر دستخط کردیے تھے تاہم صدر اشرف غنی اور حکمت یار کے دستخط کے بعد معاہدے پر عمل درآمد کیا جانا تھا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی گلبدین حکمت یار کے ملک کی سیاست میں آنے کے امکانات ایک مرتبہ پھر روشن ہوجائیں گے۔

یاد رہے کہ گلبدین حکمت یار کو افغان وار لاڈ کے طور پر جانا جاتا ہے، جو ملک کے ایک اہم عسکری گروپ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت، حزب اسلامی امن معاہدے کے قریب

افغانستان کی دوسری بڑی عسکری جماعت کے ساتھ طے پانے والے مذکورہ معاہدے کو ملک میں امن عمل کیلئے کام کرنے والے صدر اشرف غنی کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔

معاہدے کے ڈرافٹ کے مطابق افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کو 'تمام سابقہ سیاسی اور فوجی مقدمات' میں قانونی استثنیٰ اور ان کی تنظیم کے قید کارکنوں کو رہا کرے گی۔

یہ بھی یاد رہے کہ گلبدین حکمت یار کو امریکا کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے انھیں بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔

ان مذکورہ پابندیوں کو اٹھانے کیلئے بھی افغان حکومت اقدامات اور کوششیں کرے گی تاکہ انھیں مقامی سیات میں لایا جاسکے۔

اس سے قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ واشنگٹن مذکورہ مذاکرات میں شریک نہیں تاہم گلبدین سے ہونے والا امن معاہدہ خوش آئیند ہے۔

گلبدین افغان خانہ جنگی کا اہم کردار

گلبدین حکمت یار کو کئی دہائیوں تک افغان جنگ کا تجربہ ہے، وہ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں جس کو دائیں بازو کا مسلح گروہ مانا جاتا ہے جس کو 90 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان میں خانہ جنگی کا ذمہ داروں میں سے ایک کردار بھی قرار دیا جاتا رہا ہے، گلبدین حکمت یار کچھ عرصے کے لیے افغانستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

افغانستان کے سابق وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت تنظیم حزب اسلامی نے 1977 سے 1992 تک روس کے خلاف جنگ میں متحرک ترین کردار ادا کیا تھا جبکہ حزب اسلامی پر 1992 سے 1996 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین کو ہلاک کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، 2001 میں افغانستان میں امریکا کی فوجی دخل اندازی کے بعد گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت،حزب اسلامی میں معاہدےکامسودہ تیار

واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے کا افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی کی ابتر صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حزب اسلامی حالیہ چند سالوں سے غیر مؤثر ہے اور انھوں نے آخری بڑا حملہ 2013 میں کیا تھا جس میں 6 امریکیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری جانب طالبان، جن سے 2011 میں حکومت چھین لی گئی تھی، نے مغربی ممالک کی مدد سے بننے والی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے اور ملک بھر میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں