ریاض: ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ امریکی کانگرس کی جانب سے نائن الیون واقعے کے متاثرین کو سعودی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی اجازت کے بعد سعودی عرب اپنے پرانے اتحادی امریکا سے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی تعاون کم کر سکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے ’جسٹس اگینسٹ اسپانسرز آف ٹیررازم ایکٹ‘ (دہشت گردوں کے مالی معاونت کاروں کے خلاف انصاف کے قانون) کی مخالفت اور کانگرس کی جانب سے حمایت میں ووٹ دینے کے بعد سعودی حکومت کے پاس یہ تعاون ختم کرنے کا آپشن موجود ہے۔

اس حوالے سے ’دی سعودی امریکن پبلک ریلیشن افیئرز کمیٹی (ایس اے پی آر اے سی) کے صدر سلمان الانصاری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اس بل کے امریکا پر سنگین اسٹریٹجک مضمرات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودیہ پر مقدمہ: امریکی ایوان نمائندگان سے بھی بل منظور

انہوں نے کہا کہ یہ دوطرفہ تعلقات امریکی حکام کی درست انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنے میں مدد کر رہے تھے، جن سے حملے روکنے میں مدد مل رہی تھی، جبکہ اس غیر حقیقی بل کے ذریعے سعودی عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔

قبل ازیں متحدہ عرب عمارات کے وزیر خارجہ شیخ عبد اللہ بن زید النہیان نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی تعاون پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔

بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے ٹویٹر پر کہا کہ امریکی کانگرس نے اس قانون کی شکل میں اپنے ملک میں ایک تیر چھوڑ دیا ہے۔

گلف ریسرچ سینٹر کے سینئر مشیر مصطفیٰ الانی نے سعودیہ ۔ امریکا اتحاد کا پس منظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک ایسے ملک کے خلاف کیسے مقدمہ دائر کر سکتے ہیں جو اسی دہشت گردی کے خلاف تعاون کر رہا ہے جس کا آپ شکار ہوئے ہیں؟

انھوں نے کہا کہ اس عمل سے امریکا مالی سرمایہ کاری کم کردی جائے گی، جبکہ امریکا سے سیاسی اور سیکیورٹی تعاون بھی کم کردیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملہ:سعودی حکومت پر مقدمہ ہوگا؟

یاد رہے کہ نائن الیون کے واقعے میں 4 طیاروں کو ہائی جیک کرنے والے 19 میں سے 15 افراد سعودی شہری بتائے جاتے ہیں، تاہم ریاض کی جانب سے ان حملوں میں کسی بھی قسم کے کردار کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

سعودی تجزیہ کار اور صحافی جمال خاشوگی کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے اس عمل کے بعد سعودی عرب کے لیے انٹیلی جنس تعاون میں تسلسل قائم رکھ پانا بہت مشکل ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اس معاملے پر ابھی ردعمل دیا جائے یا امریکا کے کسی چھوٹے سے قصبے میں پہلا کیس فائل ہونے کا انتظار کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں