اسلام آباد: پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان پر زور دیا کہ وہ خطے میں قیام امن کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا کے نمائندگان کو ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں پر بریفنگ دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو خطے میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

سیکریٹری خارجہ کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی تھے جنہوں نے کنٹرول لائن پر بدھ کی شب شروع ہونے والے واقعات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی عدم تعاون، 'کشمیر میں اقوام متحدہ غیر فعال'

سیکریٹری خارجہ نے اپنی بریفنگ میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی توجہ ہندوستان کے جارحانہ رویے کی جانب دلایا جو خاص طور پر اس نے گزشتہ چند دنوں سے اپنایا ہوا ہے۔

اعزاز چوہدری نے پاکستان میں ہندوستان کی جاسوسی اور دہشت گردوں کی معاونت کے حوالے سے کردار پر بات کرتے ہوئے مسقتل ارکان کو یاددہانی کرائی کہ پاکستان نہ صرف خود دہشت گردی کا شکار ہے بلکہ اسے ریاستی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔

ڈی جی ایم او جنرل مرزا نے اس موقع پر ہندوستان کے اس موقف کو مسترد کیا کہ اس نے آزاد کمشیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 28 اور 29 ستمبر کی درمیانی شب ہندوستانی فورسز نے متعدد بار لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کیں جس کے نتیجے میں دو پاکستانی فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ پاکستان نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دیا۔

یہ بھی پڑھیں:منفی پروپیگنڈہ سے پاکستان کو دبایا نہیں جاسکتا، آرمی چیف

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان کی جانب سے کنٹرول لائن پر در اندازی کی کوششوں کا الزام درست نہیں کیوں کہ بھارت نے سرحد پر انسداد دراندازی مکینزم اپنا رکھا ہے جس میں کئی تہوں پر مشتمل آہنی باڑیں، خار دار تاریں، کرنٹ، بارڈر پوسٹس اور بنکرز شامل ہیں لہٰذا شدت پسندوں کی جانب سے در اندازی ممکن نہیں۔

ہندوستان خود بھی کہتا ہے کہ اس نے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لیے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر تین سطحوں پر مشتمل سیکیورٹی انتظامات کررکھے ہیں۔

سیکیورٹی کی پہلی سطح میں Long Range Reconnaissance and Observation System (LORROS) ، بیٹل فیلڈ سرویلینس ریڈار (بی ایف ایس آر) ، ہینڈ ہیلڈ تھرمل امیج، نائٹ وژن ڈیوائسز، اسپوٹرز اسکوپس، جدید دوربین، ڈیجیٹل کیمرے اور الیکٹرانک ایکسچینج کے ذریعے سرحد کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:کسی بھی جارحیت کا سخت جواب دیا جائے گا،وزیراعظم

دوسری سطح میں آہنی جالیوں کی دو تہہ جن میں سے ایک 12 فٹ اور دوسری 10 فٹ لمبی ہے اور یہ دونوں جالیاں ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے پر ہیں جس کے درمیان 4 سے چھ فٹ کی خاردار تاریں بچھی ہوئی ہیں جبکہ یہاں جاسوسی کے آلات بھی نصب ہیں جبکہ فوجی دستے مسسلسل گشت بھی کرتے رہتے ہیں۔

دراندازی کو روکنے کے لیے سیکیورٹی کی تیسری سطح پہاڑ کی چوٹی نما علاقے میں موجود ہے اور پاکستان حکام کا کہنا ہے کہ یہ سیکیورٹی انتظام اتنا سخت ہے کہ کوئی بھی اسے عبور نہیں کرسکتا۔

یہ خبر یکم اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں