ایم کیو ایم پاکستان کا کارکن کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ

01 اکتوبر 2016
ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن شبیر قائم خانی، تاجدار حیدر کے اہلخانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے—۔فوٹو/ بشکریہ ایم کیو ایم پاکستان ٹوئٹر اکاؤنٹ
ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن شبیر قائم خانی، تاجدار حیدر کے اہلخانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے—۔فوٹو/ بشکریہ ایم کیو ایم پاکستان ٹوئٹر اکاؤنٹ

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے حکام بالا سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے کارکن تاجدار حیدر کو جلد از جلد بحفاظت بازیاب کرایا جائے۔

پی آئی بی کالونی میں واقع عارضی مرکز پر ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین رابطہ کمیٹی اور تاجدار حیدر کے اہلخانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے رکن شبیر قائم خانی نے بتایا کہ کراچی کے علاقے قصبہ کالونی سے یونٹ 132 کے فنانس سیکریٹری تاجدار حیدر کو سیکیورٹی اہلکار ان کے گھر سے اپنے ساتھ لے گئے۔

شبیر قائم خانی، تاجدار حیدر کی والدہ پر سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد کے نشانات دکھا رہے ہیں—۔فوٹو/ بشکریہ ایم کیو ایم پاکستان ٹوئٹر اکاؤنٹ
شبیر قائم خانی، تاجدار حیدر کی والدہ پر سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد کے نشانات دکھا رہے ہیں—۔فوٹو/ بشکریہ ایم کیو ایم پاکستان ٹوئٹر اکاؤنٹ

شبیر قائم خانی نے بتایا کہ 29 ستمبر کو شام 4 بجے کے قریب 2 سے 3 گاڑیوں میں سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اورسرکاری اہلکاروں نے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے تاجدار حیدر کو ان کے گھر سے گرفتار کیا اور اس موقع پر ان کی بوڑھی ماں اور بہن کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما شبیر قائم خانی نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے کارکنان کی وفاداریاں تبدیل کرائی جارہی ہیں اور وفاداری تبدیل نہ کرنے پر انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے گرفتار کرایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجدار حیدر کو علاقے میں موجود پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے کارکن اپنی تنظیم میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے اور بصورت دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے، جس کے باعث وہ کئی دن سے اپنے گھر میں نہیں رہ رہے تھے۔

شبیر قائم خانی نے سوال کیا کہ اگر تاجدار حیدر نے کوئی غلطی کی بھی تو ان کے اہلخانہ کے ساتھ اتنی بدسلوکی اور تعصب کا کیا جواز بنتا ہے۔

اس موقع پر تاجدار حیدر کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو کئی دنوں سے پی ایس پی والے دھمکیاں دے رہے تھے، انھوں نے بتایا کہ سادہ لباس اہلکاروں نے انھیں پستول کا دستہ مارا، جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا جبکہ ان کی بیٹی کو بھی دھکے مارے گئے۔

یاد رہے کہ رواں برس 3 مارچ کو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے ایک دھواں دھار اور جذباتی پریس کانفرنس کے دوران 'نئی پارٹی' بنانے کا اعلان کیا تھا، جس کا نام بعد میں 'پاک سرزمین پارٹی' (پی ایس پی) رکھا گیا، اس پارٹی میں ایم کیو ایم کے متعدد ارکان اسمبلی اور کارکن شامل ہوچکے ہیں۔

مصطفی کمال 2005 سے 2009 تک متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے نامزد ناظم رہے، ایم کیو ایم نے انھیں 2011 میں سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا تاہم اپریل 2014 میں وہ سینیٹ سے مستعفی ہو گئے اور اس کے بعد سے وہ پارٹی میں مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے تھے، پاکستان واپسی تک وہ دبئی میں پاکستان کی ایک بہت بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے لیے صورتحال اُس وقت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی، جب 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ پر بیٹھے کارکنوں سے خطاب میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگائے، جس کے بعد مشتعل کارکنوں نے اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا، اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا۔

ان تمام واقعات سے ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت غیر معمولی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوگئی اور پارٹی کے سینئر رہنما اور ڈپٹی کنونیئر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے تمام فیصلے پاکستان سے کرنے کا اعلان کیا اور بعدازاں اپنے پانی اور قائد سے بھی قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔

اب ایم کیو ایم (پاکستان) کو دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، ایک طرف تو ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان سے نالاں نظر آتی ہے اور دوسرا ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ اس کے کارکنوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں