اسلام آباد: متنازع کالا باغ ڈیم حکومت کے 'تعمیر کے لیے تیار منصوبوں' کی فہرست میں شامل ہے۔

اس بات کا انکشاف اُس وقت ہوا، جب وزارت پانی و بجلی نے تعمیر کے لیے تیار اور زیر غور ہائیڈل پاور منصوبوں کی ایک فہرست سینیٹ میں پیش کی۔

سینیٹ کو بتایا گیا گہ 3600 میگا واٹ کے کالا باغ ڈیم کا تفصیلی منصوبہ اور ٹینڈر دستاویزات 1988 میں مکمل کی گئی تھیں، تاہم 'متفقہ فیصلے' کے بعد ہی حکومت اس کی تعمیر شروع کرسکتی ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے کالا باغ ڈیم کو مذکورہ فہرست میں شامل کرنے پر اعتراض کیا جبکہ سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس لسٹ کو ریکارڈ پر لانے کی وجہ پر سوال اٹھایا۔

عیجیب بات یہ رہی کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے سینیٹرز اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سندھ کے سینیٹرز نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی، جبکہ ان دونوں صوبوں کی جانب سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے۔

تاہم وزیر برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کچھ صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے کالا باغ ڈیم منصوبے کے خلاف منظور کی گئی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی بھی متنازع منصوبے کی تعمیر شروع نہیں کرے گی.

تعمیر کے لیے تیار دیگر 2 منصوبوں میں 34.5 میگا واٹ ہارپو پاور پروجیکٹ اور 1320 میگاواٹ کا تربیلا ڈیم کی توسیع کا پانچواں منصوبہ شامل ہے۔

سینیٹ کو بتایا گیا کہ ہارپو پاور پروجیکٹ کے پی سی 1 کی منظوری 28 مارچ 2014 کو دی گئی تھی اور اس حوالے سے کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کا عمل جاری ہے۔

تربیلا ڈیم کے پانچویں توسیعی منصوبے کے پی سی 1 پر 81 ارب روپے لاگت آئے گی، جس کی منظوری رواں برس 17 فروری کو دی گئی تھی اور اس کے لیے بھی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کا عمل جاری ہے اور ورلڈ بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے حال ہی میں پروجیکٹ کے لیے مالی امداد کی منظوری دی ہے۔

وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل نے اپنے تحریری جواب میں سینیٹ کو بتایا کہ چاغی میں سیندک پروجیکٹ کے ذریعے 6.093 ٹن سونا، 9.693 ٹن چاندی اور 76,000 ٹن سے زائد تانبا نکالا جاچکا ہے، جس سے گذشتہ 5 سال کے دوران 83 کروڑ 40 لاکھ ڈالرسے زائد کا منافع حاصل ہوا۔

ایوان کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وفاقی اور بلوچستان کی حکومتوں نے اس منافع میں سے بالترتیب 10 کروڑ 54 لاکھ 60 ہزار ڈالر اور 7 کروڑ 7 لاکھ 60 ہزار ڈالر حصہ حاصل کیا۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ منافع کا ایک بڑا حصہ پروجیکٹ پر کام کرنے والی غیر ملکی کمپنی کے حصے میں جارہا ہے، ان کا کہنا تھا، 'پاکستان میں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے لوٹ سیل لگی ہوئی ہے'۔

پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں میں 300 ارب اضافے کے معاملے پر سینیٹر میاں عتیق شیخ کی جانب سے توجہ دلانے پر عابد شیر علی نے تصدیق کی کہ یہ قرض اس وقت 312 ارب روپے ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیٹ آئل کو باقاعدگی سے ادائیگی کی جارہی ہے اور توانائی پیدا کرنے والی کوئی کمپنی بند نہیں ہوئی۔

سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ ملک میں 18 ہزار صنعتیں بند ہوچکی ہیں، ساتھ ہی انھوں نے صنعتوں کی بحالی کے لیے قانون سازی پر بھی زور دیا۔

سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ 1970 میں مختلف صنعتوں کو قومیانے کے بعد سے سرمایہ کار ملک میں اندسٹریز قائم کرنے سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

یہ خبر یکم اکتوبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

راشد ففسی Oct 01, 2016 04:56pm
کالا باغ dame پاکستان کی ضرورت تهی اج بجلی کا بحران هی - بیس هزار صنعتی یونت بند هو گی هین، بعض سیاست دان کوگو ن کو بی وقوف بنا نی کا شغل کر رهی تهی اگر اج اس پر provinces متفق هین تو بعض لوگون کو کیون problem هو رهی هین
انوارالحق Oct 01, 2016 04:56pm
اس دیس دی مٹی سونا اگلے سونا ! چوراں دےہتھ رہیایاروفائدہ نئ کجھ ہونا.