نئی دہلی: ہندوستان میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدا لباسط نے مذاکرات کی اہمیت پر اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان محض دکھاوے کے لیے بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک علامتی بات چیت سے آگے بڑھ کر بامقصد مذاکرات کی راہ اختیار کریں۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو دیے جانے والے انٹرویو میں پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان کی بھارت کے حوالے سے پالیسی میں پاک فوج کا انتہائی اہم کردار ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں تعطل کے حوالے سے سوال کے جواب میں عبدالباسط نے کہا کہ ’جہاں تک مذاکرات کے فریم ورک کے بات ہے اس معاملے میں کوئی رکاوٹ یا تعطل نہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں:’پاکستان، ہندوستان کے ساتھ مثبت تعلقات کیلئے پر امید‘

انہوں نے کہا کہ دسمبر 2015 میں جب ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئی تھیں تو دونوں ملکوں کے درمیان فریم ورک پر اتفاق ہوگیا تھا جو کہ انتہائی متوازن اور جامع ہے لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ سلسلہ شروع کیسے کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی مذاکرات شروع ہوں ان کی بنیاد دسمبر میں طے پانے والے سمجھوتے پر ہی مبنی ہونی چاہیے۔

عبدالباسط نے کہا کہ بھارت، افغانستان اور سیکیورٹی سے متعلق دیگر معاملات میں پاک فوج کا انتہائی اہم کردار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ توقع کرنا کہ پاکستان کی بھارت، افغانستان اور دیگر ایسے معاملات کے حوالے سے پالیسی میں فوج کا کوئی کردار نہیں، غلط ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف حکومت کے منتخب سربراہ ہیں اور وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں جبکہ بقیہ ہمارا فیصلہ سازی کا عمل ہے۔

پاکستانی ہائی کمشنر نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے حوالے سے پالیسی فوج کو اعتماد میں لیے بغیر بناسکتا ہے؟ یا پھر امریکی حکومت پینٹاگون کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے پالیسی مرتب کرسکتی ہے؟‘

مزید پڑھیں:ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لفظی جنگ میں شدت

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور بھارت خطرنات تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’میں اس بارے میں نہیں سوچتا اور نہ میں کبھی ان خیالات پر غور کروں گا‘۔

بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں عبدالباسط نے کہا کہ ’میں آپ کو یقین دلاؤں کہ اگر سرجیکل اسٹرائیک ہوتا تو پاکستان فوری طور پر اسی طرح جواب دیتا اور ہمیں جواب دینے کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت نہیں‘۔

پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ میں ان تجزیہ نگاروں کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیکس جیسی سنجیدہ اصطلاحات کو اس طرح استعمال نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس میں بے پناہ خطرہ ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نئی دہلی اُڑی حملے کے ثبوت پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن پاکستان کیوں تحقیقات میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہا ہے تو پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ ’ہم نے پہلے ہی واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز پیش کردی ہے تاکہ جامع اور ناقابل تردید نتائج سامنے آسکیں۔‘

یہ بھی پڑھیں:اڑی حملہ:ہندوستان الزامات سے گریز کرے، پاکستانی ہائی کمشنر

انہوں نے کہا کہ ہماری پیشکش اب بھی موجود ہے کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ الزام تراشی کے اس سلسلے کو ختم کیا جائے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے برہان وانی کو ’شہید‘ کہنے کی وجوہات پوچھی گئیں تو عبدالباسط نے کہا کہ ’آپ کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہزاروں لوگ جو برہان وانی کے جنازے میں شریک تھے وہ سب دہشت گرد کے حامی تھے،8جولائی کے بعد سے 100 سے زائد افراد ہلاک اور 14 ہزار زخمی ہوئے، کیا وہ سب بھی دہشت گرد تھے؟‘

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کی عینک سے دیکھیں گے تو آپ غلط نتائج اخذ کریں گے، کیا آپ جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا چاہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ یہ ایک علاقائی تحریک ہے اور یہ بات کئی بار ثابت ہوچکی ہے۔

عبدالباسط نے کہا کہ ’ دونوں ممالک 1947 سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور 2015 کے مشترکہ اعلامیے کے تناظر میں اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ اہم تنازع ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بھارت کیوں اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں، شملہ معاہدے میں بھی یہ درج ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیا جانا چاہیے لیکن جب تک ہم مذاکرات نہیں کریں گے یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا۔‘

یہ خبر 10 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں