پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں غیرت کے نام پر قتل کے کُل 1354 کیس ریکارڈ پر آئے۔ ان میں 1096 خواتین اور 88 مرد اور 170 بچے زندگی کے حق سے محروم کر دیے گئے۔

یہ تعداد گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جو معاشرے میں بڑھتے اجتماعی رجحان و ہیجان کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر ڈبلیو-اے-آر (War Against Rape) کی رپورٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو ان کے مطابق پاکستان میں روزانہ چار خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، بچوں اور مردوں کی تعداد اس میں شامل نہیں۔

اس المیے کا قابلِ غور رخ یہ ہے کہ درج شدہ ایف آئی آر اور ہسپتال میں آنے والے کیسز کی تعداد میں فرق نمایاں ہے، جس کی وجہ شاید تھانے کے عملے کا رویہ اور نظامِ انصاف پر عدم اعتماد، جبکہ دوسری وجوہات یقیناً معاشرتی دباؤ، کسی قسم کا معاشی لالچ اور سماجی خوف کے تحت معاملات کو دبا دینا شامل ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن کے مطابق 2014 میں جنسی زیادتی کے 1515 جبکہ غیرت کے نام پر قتل کے 713 کیسز سامنے آئے۔ اس تعداد میں جلا کر مار ڈالنے، تیزاب گردی، گھریلو تشدد، اغواء، مبینہ خود کشی اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔

ایسی خطرناک صورتحال میں قانون سازی، اجتماعی ذہن سازی، معاشرتی شعور، اپنے حقوق سے آگہی کا عالم کیا ہوسکتا ہے، اس کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے۔

گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں جاری صورتحال کے تناظر میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوایا گیا، اور اسی کارروائی کے دوران دو اہم قوانین کثرتِ رائے سے پاس کروا لیے گئے۔ غیرت کے نام پر قتل اور انسدادِ عصمت دری کے یہ دونوں بِل رواں سال جولائی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کیے تھے۔ یاد رہے کہ 16 جولائی کو غیرت کے نام پر ماڈل قندیل بلوچ کے قتل سے پیدا ہوئی صورتحال نے بھی اس منظوری کے لیے دباؤ بڑھایا تھا۔

پڑھیے: غیرت کے نام پر قتل اور انسداد ریپ بل امید کی نئی کرن

پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سینیٹر صغریٰ امام ان بِلز کو پارلیمنٹ میں لے کر آئی تھیں جنہیں قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیا۔ مذکورہ قوانین (ترمیم شدہ شکل) کے پاس ہوجانے کے بعد جو بحث دیکھنے میں آئی وہ افسوسناک حد تک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ہاہاکار کے سوا کچھ خاص دکھائی نہیں دیتی۔

قانون کے مندرجات آسان زبان میں سمجھانے، سقم سمجھنے اور انہیں دور کروانے کی کوشش، جبکہ عملدرآمد میں موجود مشکلات اور باریکیوں کا زیرِ بحث لانا یوں بھی روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

اگر مسئلہء کشمیر کے لیے بلائے گئے اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون پیش کر کے عجلت میں منظور کروانے کے بجائے اس کام کو تحمل سے کیا جاتا تو کئی ایسی ممکنہ خامیاں جن کی طرف ٹی وی شوز اور اخباری مضامین میں توجہ دلائی جا رہی ہے، انہیں پہلے ہی درست کیا جا سکتا تھا۔

لیکن پھر بھی یہ پیش رفت خوش آئند ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف پاس شدہ بل میں قصاص کا پہلو برقرار رکھا گیا لیکن اس کے باوجود عمر قید کی سزا لازم بنا دی گئی ہے جو کہ پچیس برس ہے اور وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد صاحب کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ان مقدمات میں فریقین کا راضی نامہ ماضی کی طرح ہونا ممکن نہیں ہوگا۔

2004-2005 میں ایک ترمیم لائی گئی تھی جس میں جج صاحبان کو سزا کے تعین کے بارے میں صوابدیدی اختیار دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کا کچھ خاص فائدہ اتنے برسوں میں تو دکھائی نہیں دیا۔ حالیہ قوانین کے متن کے مطابق مقتول کے ولی اسی صورت معاف کرسکتے ہیں، اگر عدالت کی جانب سے سزائے موت کا حکم آئے، جبکہ کم از کم سزا (عمر قید) میں کمی یا معافی کی گنجائش نہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھی جائے کہ "کم از کم سزا" والا پہلو اکثریت نظر انداز کر رہی ہے۔

مشہور قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق فساد فی الارض یا قتلِ عمد جیسی اصطلاحات کا استعمال کر کے اس قانون کو کچھ مذہبی جماعتوں کے لیے قابلِ قبول بنانے کی راہ نکالی گئی تاکہ ورثاء سے معافی کا حق چھینے جانے کے 'خلافِ شرع' ہونے کا تاثر زائل کیا جا سکے۔

دوسری جانب نوے روز میں زنا بالجبر کے کیس کو نمٹانے کا فیصلہ تو کر لیا گیا ہے، اب اس پر عمل کِس طرح ہوگا، وہ مستقبل میں دیکھنا پڑے گا۔

اہم قدم یہ ہے کہ مذکورہ قانون متاثرہ خواتین اور مرد دونوں کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بل کی سب سے نمایاں خصوصیت ڈی این اے ٹیسٹ کا بطورِ شہادت قانونی حیثیت حاصل کیا جانا ہے۔ پارلیمنٹ نے یقیناً اپنی بالا دستی اس ضمن میں قائم کرلی ہے۔

پڑھیے: ’تحفظ خواتین ایکٹ‘ اسلامی نظریاتی کونسل میں مسترد

دوسرا اہم نقطہ زنا بالجبر کے مقدمے میں قانونِ شہادت کے تحت متاثرہ فرد کے کردار کی جانچ پڑتال کا تلف کیا جانا ہے۔ یوں سیکس ورکرز کو بھی یہ قانون بظاہر تحفظ فراہم کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

جب ہم سینہ پھلا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسدادِ عصمت دری کے قانون میں اب بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی تو دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ "اب" سے کیا مراد ہے؟ کیا واقعی ستر برسوں سے بچوں اور ذہنی معذوروں کے ساتھ اس حیوانیت کے خلاف کوئی قانون موجود ہی نہ تھا؟

کیا خود کو قانون ساز کہلوانے والے ہمارے عوامی نمائندے اس تمام عرصے میں سفاکیت سے معاشرے کے اس ناسور کو پلتا دیکھتے رہے؟

تھانہ کلچر نے ہمارے ہاں جو تباہی مچائی ہے، شاید اسی کے تناظر میں انسدادِ عصمت دری کے قانون کے تحت تھانے کی حدود میں کسی خاتون کے ساتھ زیادتی پر دوہری سزا کا عندیہ دیا گیا ہے، جبکہ تفتیشی بددیانتی پر پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو قید یا جرمانہ یا دونوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جیل میں ہونے والی جنسی زیادتی کے مجرم کو بھی پھانسی ہو گی۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان مقدمات میں متاثرین کی پہچان ظاہر نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ ایسے مقدمات کی سماعت بھی اِن کیمرے رکھنے کی سہولت مہیا کی جائے گی، اور کسی بھی قسم کے جانی یا معاشرتی نقصان سے تحفظ کی خاطر ویڈیو لنک کے ذریعے بھی گواہی ممکن ہوگی۔

کچھ ناقدین کو سننے کا اتفاق ہوا جِن کا اعتراض یہ ہے کہ اب قتل کا محرک ثابت کرنا ہوگا، ملزم کوشش کرے گا کہ لفظ غیرت کو عدالتی کارروائی میں استعمال نہ ہونے دے، جبکہ استغاثہ اسی پہلو پر زور دے گا، یوں مقتول کی نجی زندگی کو کھنگالا جائے گا۔

اب جب تک کسی مقدمے کی کارروائی اس قانون کے تحت عمل میں نہیں آتی صورتحال واضح ہونا مشکل ہے۔ سقم کی نشاندہی عموماً عمل کے دوران زیادہ نمایاں ہوا کرتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ ان قوانین کے غلط استعمال اور ان میں موجود موشگافیوں پر کس قدر گہری نظر رکھتی ہے۔

پڑھیے: غیرت کے نام پر قتل: 'زبردستی معافی' کا باب بند

اگر پارلیمنٹ غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کا واقعی عزم رکھتی ہے تو وقتاً فوقتاً اس قانون کا جائزہ لے گی اور اس میں موجود خامیوں کو دور کر کے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرے گی۔ بادی النظر میں ایسا ہوتا نظر تو نہیں آتا لیکن پھر بھی، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

مشترکہ اجلاس میں ان قوانین کے پیش کرنے پر جمشید دستی کی ہرزہ سرائی پر چنداں حیرت نہیں ہوئی۔ صاحب نے فرمایا کہ "اب تو پانچویں جماعت کا بچہ بھی سیکس ایجوکیشن سے آگہی رکھتا ہے۔" ان کے خیال میں پارلیمنٹ پاکستان مخالف امریکی این جی اوز اور یہودی ایجنڈے کے زیرِ اثر آچکی ہے۔

یاد دہانی کے لیے ذکر کرتی چلوں کہ یہ وہی صاحب ہیں جن کے خلاف 2015ء میں مظفر گڑھ میں غیرت کے نام قتل میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔

دو انتہائیں ہیں اور لطف یہ ہے کہ دونوں ہی اس قانون کو مسترد کر رہے ہیں۔ ایک جانب مذہبی جماعتیں ہیں جو انہیں شریعت کی روح کے منافی اور دہشتگردی کی شکل قرار دے رہے ہیں اور اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے (یہ حیثیت ہے کیا، اس بارے میں رائے محفوظ ہے)۔ دوسری جانب روشن خیال کہلوانے والے اس قانون کو اسموک اسکرین کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ان جرائم کو ناقابلِ مصالحت ہونا چاہیے۔

محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ہی انتہاؤں پر بیٹھے لوگ یوں ہی مصروفِ عمل رہیں گے، یہ سمجھے بغیر کہ قوانین کا مقصد جرائم کا خاتمہ کرنے سے زیادہ مثبت اور بہتر معاشرتی رویوں کی تشکیل کی جانب رہنمائی ہوتا ہے۔

آپ مجرم کو بھلے ہی کڑی سے کڑی سزا دیتے رہیں، لیکن وہ عوامل تبدیل نہ کریں جن کی بناء پر جرائم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے، تو سخت ترین قانون کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

اب جبکہ ہم نے اس گھناؤنے جرم کے انسداد کے لیے قانون سازی کی صورت میں پہلا قدم اٹھا لیا ہے، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ نصاب، عوامی رابطہ سازی، اور کمیونٹی پولیسنگ جیسے اقدامات کے ذریعے لوگوں میں ان جرائم کے خلاف آگاہی پیدا کی جائے.

کوشش کی جائے کہ پولیس، تفتیشی اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے ذریعے ان قوانین پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کروایا جائے.

جب تک کہ ریاست کی جانب سے یہ اقدام نہیں اٹھائے جائیں گے، تب تک قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا.

تبصرے (0) بند ہیں