اسلام آباد: ارکان سینیٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ملکی مفادات کا فعال طریقے سے تحفظ نہ کیا گیا تو چائنا پاکستان اقتصادی راہداری ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی بن سکتی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی و منصوبہ بندی کے چیئرمین سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ ’ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی بننے والی ہے، ملکی مفادات کا تحفظ نہیں کیا جارہا، ہمیں پاک چین دوستی پر فخر ہے لیکن ملکی مفاد سب سے پہلے آنا چاہیے‘۔

سینیٹ میں بعض ارکان نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت عوام کے حقوق اور مفادات کا تحفظ نہیں کررہی۔

واضح رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی برطانوی تجارتی مشن تھا جسے ہندوستان بھیجا گیا تھا اور جو برصغیر میں برطانوی استعماریت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی جس کے ذریعے اس وقت ہندوستان پر حکومت کرنے والے مغل بادشاہوں کو عہدوں سے ہٹادیا گیا تھا۔

پلاننگ کمیشن کے سیکریٹری یوسف ندیم کھوکھر کی بریفنگ کے بعد کمیٹی کے کئی ارکان نے سی پیک منصوبوں کی چینی یا کسی اور بیرونی سرمایہ کاری کے بجائے مقامی فنڈنگ پر خدشات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک بھی کالا باغ ڈیم بن جائے گا، اختر مینگل

ارکان کمیٹی نے سی پیک سے وابستہ توانائی کے منصوبوں کے پاور ٹیرف کا تعین چین کی جانب سے کیے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

سینیٹرز نے استفسار کیا کہ سی پیک کے زیادہ تر منصوبوں کی فنڈنگ بیرونی سرمایہ کاری کے بجائے مقامی طور پر کیوں کی جارہی ہے۔

چونکہ کمیٹی کے اجلاس میں حکمراں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے تین میں سے صرف ایک رکن موجود تھے لہٰذا ارکان کی جانب سے کی جانے والی تنیقد کا کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا۔

اجلاس میں موجود مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے بھی کمیٹی کے چیئرمین کی شکایات کی توثیق بھی کی۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ ’اگر ہمیں سارا بوجھ برداشت کرنا پڑا تو یہ بہت ہی نقصان دہ ہوگا، یہ منصوبہ قومی ترقی کا ہے یا قومی بربادی کا؟ حکومت چینی بینکوں سے جو بھی قرضے لے گی وہ پاکستان کے غریب لوگوں کو ادا کرنے ہوں گے‘۔

سی پیک کے تحت بننے والے پاور پروجیکٹس کے حوالے سے سیکریٹری پلاننگ کمیشن نے بتایا کہ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن پروجیکٹ کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اس کے چینی اسپانسرز اسے آگے بڑھارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سی پیک: 'پنجاب میں زیادہ سرمایہ کاری کا تاثر غلط'

حال ہی میں نیشنل انرجی پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) نے اس منصوبے کے لیے ٹیرف کی منظوری دی تھی لیکن اسپانسر کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے حکومت کے پرائیوٹ پاور انفرااسٹرکچر بورڈ نے اس ٹیرف پر نظر ثانی کی درخواست دائر کردی۔

اس موقع پر سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے نشاندہی کی کہ نیپرا نے اس پروجیکٹ کے لیے پاور ٹیرف 71 پیسہ فی یونٹ مقرر کیا تھا لیکن چینی سرمایہ کار 95 پیسہ فی یونٹ کا مطالبہ کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے ٹیرف میں اضافے کے لیے نیپرا میں اپیل دائر کردی حالانکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا بوجھ غریب صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا‘۔

سیکیرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ گڈانی پاور پلانٹ کمپلیکس کو بھی متعلقہ جیٹی نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا اور 6 ہزار میگا واٹ کا یہ پروجیکٹ سی پیک کا حصہ نہیں ہے۔

اس پر سینیٹر کاکڑ نے فوری طور پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ پروجیکٹ سی پیک کا حصہ نہیں ہے، چینی سفیر سن وائی ڈونگ نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا کہ گڈانی پاور پلانٹ منصوبے کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ وہ چی پیک کا حصہ ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ’جب ایک منصوبہ وجود ہی نہیں رکھتا تو پھر اسے ہمارے کھاتے میں کیوں ڈالا جارہا ہے‘؟

انہوں نے کہا کہ گوادر میں تعمیر کیے جانے والے انفرااسٹرکچر سے صرف چین اور پنجاب حکومت کو فائدہ ہوگا مقامی آبادی کو نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو اس منصوبے سے صرف ایک فائدہ حاصل ہوگا اور وہ ہے پانی کی فراہمی کیوں کہ سی پیک کے تحت بلوچستان میں بجلی یا ریلوے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’سی پیک کے تمام معاہدے منظر عام پر لائے جائیں‘

سینیٹر مندوخیل نے کہا کہ چھوٹے صوبوں میں احساس سے محرومی پیدا ہوچکا ہے اور وفاقیت کو نقصان پہنچا کر سی پیک نہیں چاہتے۔

چونکہ وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال اجلاس میں شریک نہیں تھے لہٰذا سینیٹر مندوخیل نے سیکریٹری پر زور دیا کہ وہ مشورہ دیں کہ وفاق کی سالمیت کو کیسے یقینی بنایا جائے۔

سینیٹر مندوخیل نے پلاننگ کمشین پر الزام لگایا کہ اس نے صوبہ بلوچستان کو اپنی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے رکھا ہوا ہے اور خود کمشین میں صوبے کی کوئی نمائندگی نہیں۔

جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر کو بھی سی پیک میں نظر انداز کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک میں فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، مظفر آباد کو سی پیک سے جوڑنے کے لیے 35 کلو میٹر طویل سڑک تعمیر ہونے چاہیے تھی تاکہ آزاد جموں و کشمیر کے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے۔

یہ خبر 18 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

tuaha sohail Oct 18, 2016 10:57am
جناب یہ نقصان ہوچکا ہے