کراچی: فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اہلکار کی جانب سے تھپڑ مارنے کا دعویٰ کرنے والی نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر کے خلاف بھی ’کارِ سرکار میں رکاوٹ‘ ڈالنے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

حکام کے مطابق نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر صائمہ کنول کے خلاف ایف آئی آر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ایک عہدے دار کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزرشہ روز سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس نے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) گارڈ کی جانب سے نجی چینل کی خاتون رپورٹر کو تھپڑ مارنے کا مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

حکام کے مطابق نہ صرف رپورٹر صائمہ کنول بلکہ ان کی ٹیم کے ارکان کے خلاف بھی تعزیرات پاکستان کی ان دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں جو کارِ سرکار میں مداخلت اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے سے متعلق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف سی گارڈ کا خاتون رپورٹر کو تھپڑ، مقدمہ درج

ایس ایس پی مقدس حیدر نے تصدیق کی کہ خاتون صحافی اور ان کی ٹیم کے ارکان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے جن کے خلاف نادرا کے عہدے دار نیاز احمد نے تحریری طور پر شکایت درج کرائی تھی۔

واضح رہے کہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں نادرا کے دفتر میں تعینات ایف سی گارڈ حسن عباس کے خلاف خاتون صحافی کو مبینہ طور پر تھپڑ مارنے پر ایف آئی آر (166/2016)درج کرلی گئی تھی۔

صحافی صائمہ کنول کے 21 ٹی وی چینل کے لیے اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ نادرا کے دفتر میں کررہی تھیں اور وہاں موجود لوگوں سے ان کی مشکلات معلوم کررہی تھیں جب یہ واقعہ پیش آیا۔

اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وڈیو بھی گردش کرنے لگا جس میں ایف سی اہلکار کو تھپڑ مارتے ہوئے دکھایا گیا اور پھر اعلیٰ حکام نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا۔

ایس ایس پی حیدر نے بتایا کہ نادرا کے افسر نے نیوز چینل کی ٹیم کے خلاف مقدمے کے لیے درخواست فوری طور پر دے دی تھی تاہم باضابطہ طور پر مقدمہ درج کرنے میں تھوڑا وقت لگا۔

انہوں نے کہا کہ مزید کارروائی سے قبل پولیس دونوں مقدمات کے حوالے سے مزید تحقیقات کرے گی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد تشدد کیخلاف سیاسی جماعتیں اور صحافی سراپا احتجاج

اس ناخوشگوار واقعے کے بعد شوشل میڈیا میں میڈیا کی اخلاقیات، صحافیوں کے لیے ضابطہ اخلاق اور صحافیوں کے رویے پر ایک بحث چھڑ گئی جبکہ عوامی مقامات پر فرائض انجام دینے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی درست ٹریننگ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

سینئر صحافیوں، میڈیا کے اداروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خاتون رپورٹر کے ساتھ ایف سی اہلکار کے رویے کی سخت مذمت کی۔

تاہم انہوں نے صائمہ کنول کی پیشہ وارانہ اخلاقیات اور ایف سی اہلکار کو درجنوں افراد کے سامنے چیلنج کرنے کے رویے پر بھی سوالات اٹھائے۔

29 سیکنڈز پر مبنی وڈیو کلپ میں بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ صائمہ کنول ایف سی گارڈ کا گریبان پکڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔

کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے کہا کہ ’جو کچھ ہم نے وڈیو میں دیکھا وہ انتہائی تکلیف دہ ہے جبکہ سیکیورٹی گارڈ کا رد عمل بھی قابل مذمت ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو کچھ خاتون رپورٹر کررہی تھیں وہ صحافت بالکل نہیں تھی، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا براڈ کاسٹ اور الیکٹرانک میڈیا ارتقائی مرحلے سے گزر رہا ہے اور ہم اسے میچور نہیں کہہ سکتے‘۔

دریں اثناء اے پی پی نیوز ایجنسی کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کی ہدایات جاری کردیں۔

انہوں نے کہا کہ صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یہ خبر 22 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (2) بند ہیں

sahi bath Oct 22, 2016 09:54am
ACCHA KIA..ye khatoon intehaye badtameze kr rahe te
ismail shah Oct 22, 2016 11:07am
ہم نے وڈیو میں دیکھا وہ انتہائی تکلیف دہ ہے جبکہ سیکیورٹی گارڈ کا رد عمل بھی قابل مذمت ہے‘۔ وڈیو کلپ میں بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ صائمہ کنول ایف سی گارڈ کا گریبان پکڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ جھے معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو کچھ خاتون رپورٹر کررہی تھیں وہ صحافت بالکل نہیں تھی