کراچی: گاڑیاں بنانے والی کمپنی پاک سوزوکی نے مقامی سطح پر اپنے کامیاب ترین ماڈل مہران 800 سی سی کو 2018 تک سوزوکی آلٹو 660 سی سی سے تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔

پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ کے پلانٹ کا دورہ کرنے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔

سینیٹ کمیٹی نے اس موقع پر ہدایت کی کہ کمپنی نئے ماڈلز میں عالمی معیار کے مطابق حفاظتی فیچرز متعارف کرائے۔

سینیٹ کمیٹی کے وفد کی قیادت سینیٹر ہدایت اللہ کررہے تھے جبکہ خالدہ پروین، کلثوم پروین اور چوہدری تنویر خان بھی اس میں شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سوزوکی مہران کو خدا حافظ کہنے کا وقت آگیا؟

اس کے علاوہ وفد میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار شیر ایوب خان اور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے سی ای او طارق اعجاز چوہدری بھی شامل تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنی نے مقامی دکانداروں کے ساتھ مل کر نئی 660 سی سی گاڑیوں کے لیے پارٹس کے حصول کا عمل بھی شروع کردیا ہے۔

کمپنی نے سینیٹ کمیٹی کے وفد کو اپنے مستقبل کے منصوبوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مارچ 2017 تک اپنے ماڈل ’کلٹس‘ کی جگہ سیلیریو Celerio 1000 سی سی متعارف کرانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔

سوزوکی نے سن 2000 میں اپنے ماڈل ’خیبر‘ کی جگہ ’کلٹس‘ متعارف کرائی تھی جو خاصی کامیاب رہی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنی 2017 میں درآمد شدہ سوزوکی گرینڈ ویٹارا ایس یو وی اور 1300 سی سی کی سیڈان سیاز بھی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اگر یہ ماڈلز پاکستان میں کامیاب رہے تو کمپنی ان کی مقامی سطح پر اسمبلنگ پر بھی غور کرے گی۔

مزید پڑھیں: پاک سوزوکی نے گاڑیوں کی قیمتیں 3 فیصد بڑھا دیں

واضح رہے کہ سوزوکی نے 1988 میں اپنے ایف ایکس 800 سی سی ماڈل کی جگہ مہران متعارف کرائی تھی جس کی فروخت ہمیشہ ہی اچھی رہی اور 660 سے 1000 سی سی کی درآمد شدہ گاڑیوں کے استعمال میں اضافے کے رجحان کے باوجود اس کی طلب میں کوئی فرق نہیں آیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قائمہ کمیٹی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مقامی دکاندار سوزوکی مہران کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیوں کہ اس کے پرزوں اور دیگر سامان کی فروخت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

پاک سوزوکی کی انتظامیہ نے کمیٹی کو بتایا کہ کمپنی کے موجودہ پلاںٹ پر اب تک 15 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بعد ازاں انڈس موٹر کمپنی کا بھی دورہ کیا اور اس موقع پر وفد کو کمپنی کی پیداواری صلاحیت، لوکلائزیشن پروسیس اور آٹو انڈسٹری کے پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کیا گیا۔

یہ خبر 22 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

Naveed Chaudhry Oct 23, 2016 07:51am
السلام عليكم I use to work for one automobile assembler and in my opinion our market size is not large enough to manufnecturing due to many reasons including, Import of so many different type of vehicles and Assembling so many different type of vehicles Lake of planning on part of Government Pressure of forighn countries and importers If we want to develop local industry than we have to protect and support our industry and let it improve under strict controls. Assembling automobile is not helpful we should try to become manufacturers and that will allow local industry to grow and create jobs.