یہ ایک سیاسی اشتعال انگیزی تھی، ایک ڈھکی چھپی دھمکی، یا پھر ایک حقیقت پر مبنی بیان؟ یا یہ ان تینوں میں سے کچھ کچھ تھا؟

پی ٹی آئی کی جانب سے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے سے پہلے ایک غیر متوقع صورتحال نے اس وقت جنم لیا جب عمران خان نے یہ کہا کہ اگر کسی تیسری قوت نے مداخلت کی اور جمہوریت پٹری سے اتری، تو وزیرِ اعظم نواز شریف اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

عمران خان کی جانب سے ایسے اشتعال انگیز بیانات کوئی نئی بات نہیں، اور انہوں نے اکثر جمہوری رویوں کی حدود پار کی ہیں۔

اس اخبار نے بار بار یہ مؤقف اپنایا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو احتجاج کا جمہوری حق حاصل ہے، بلکہ پارلیمنٹ میں اس کا تیسری بڑی جماعت ہونا اور گذشتہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا اسے ملکی سیاست میں اہم مقام دلواتا ہے۔

پاناما پیپرز کی شفاف تحقیقات کا پی ٹی آئی کا مطالبہ جائز اور منصفانہ ہے، اور اس مطالبے پر پاکستان مسلم لیگ ن کا لاپرواہ رویہ نہایت قابلِ افسوس ہے۔

لیکن ایک زیادہ معقول اور جمہوری راستہ، جو عمران خان کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنانا چاہیے تھا، وہ مزید جمہوریت کا مطالبہ ہے، کم جمہوریت نہیں؛ انہیں جمہوری اداروں کی مضبوطی کی بات کرنی چاہیے، جمہوری نظام الٹنے کی نہیں۔

کیوں کہ بہرحال جہاں تک پاناما پیپرز کا معاملہ ہے تو پی ٹی آئی کے موجودہ مطالبات ایک صاف، شفاف اور بہتر نظامِ حکومت کے لیے ہیں۔

مگر عمران خان پاکستانی سیاست میں فوج کا کیا کردار دیکھ رہے ہیں؟ اگر پاکستان کے کمزور اداروں اور جمہوری رویوں کی عدم موجودگی کا منصفانہ اور تاریخی تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں سیاستدانوں نے جمہوری نظام مضبوط کرنے کے مواقع گنوائے ہیں، تو وہیں نظام کی بنیادی کمزوریاں جمہوری نظام میں بار بار غیر آئینی مداخلت کی وجہ سے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب سول ملٹری تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں، اس وقت عمران خان کو جمہوری نظام کے لیے خطرات پیدا کرنے سے پہلے دو بار سوچنا چاہیے، اور پھر دو بار سوچنا چاہیے۔

اس ملک کو ایک شفاف جمہوری نظام کی ضرورت ہے، پر اگر ہم کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، تو اس ملک میں جمہوری نظام جاری رہنا چاہیے۔

ملکی تاریخ کے اس اہم موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ داؤ پر کیا لگا ہوا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام 2008 میں شروع ہوا اور جمہوری حکومت دوسری بار مدت مکمل کرنے جا رہی ہے، اور دوسری بار ایک پارلیمنٹ دوسری پارلیمنٹ کو پرامن طور پر اختیارات منتقل کرے گی۔

ہاں اس نظام میں خامیاں موجود ہیں اور اس میں زبردست بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت حکومت، حکمرانی، اور عوامی معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ ملک کی جمہوریت لوگوں کی امانت ہے، اس کی بنیاد آئینِ پاکستان میں موجود ہے، اور جمہوریت اس عظیم قوم کے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی خواہش ہے۔

جمہوریت واحد قانونی اور آئینی نظام ہے، اور یہی وہ نظام ہے جس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اس نازک موقع پر تاریخ کی درست جانب موجود رہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 25 اکتوبر 2016 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ahmakadami Oct 26, 2016 10:40am
یہ ایک سیاسی اشتعال انگیزی اور چھپی دھمکی، تھی