بنگلہ دیش پولیس نے جماعت اسلامی کے دو ارکان کو مبینہ مسلح تصادم میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ماوراآئین ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز نے رواں سال جولائی میں ڈھاکا کے ایک کیفے میں مبینہ دہشت گردوں کے حملے میں 22 غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد کریک ڈاؤن شروع کی تھی۔

دوسری جانب کریک ڈاؤن کے دوران ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ نشانہ بنائے جانے والوں میں حزب مخالف کے کارکنان بھی شامل ہیں۔

سینیئرپولیس آفیسر ازبہار علی شیخ کا کہنا تھا کہ 'جماعت اسلامی جھینائدا کے مغربی ضلع کے رہنما اور اور ان کی طلبا تنظیم کے رکن کو منگل کی صبح ماراگیا ہے'۔

خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'جب ان کے خلاف علی الصبح چھاپہ مارا گیا تو انھوں نے پولیس پر پستول سے فائر کئے اور تین خودساختہ بم بھی پھینکے جوابی فائرنگ سے دو افراد نشانہ بنے جبکہ بعد میں ان کی شناخت کرلی گئی'۔

بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے رہنما نورخان لیٹن نے ان ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

نورخان لٹن نے اے ایف پی کو بتایا کہ مقامی اخبار نے جماعت کے کارکنوں کی گمشدگی کی رپورٹ دی تھی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ 'ان ہلاکتوں پر ہمارے سنجیدہ نوعیت کے سوالات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ماورا قانون ہلاکتیں ہیں'۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے ایک سینیئر رہنما نے دوکارکنوں کی مقابلے میں ہلاکت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں گزشتہ ماہ کے اواخر میں سادہ لباس پولیس اہلکاروں نے اٹھا لیا تھا۔

انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ 'یہ پولیس کی جانب سے ماورا قانون کارروائیاں ہیں'۔

واضح رہے بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت نے حالیہ سالوں میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر کررکھا ہے جبکہ شدید احتجاج کے بعد ہزاروں کی تعداد میں اسلام پسندوں کو قید اور دیگر سزائیں دی جاچکی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں