امداد علی کیس: ذہنی بیمار شخص کو پھانسی دینا کیوں غلط؟

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2016
سزائے موت دینا اس وقت تک اخلاقی طور پر درست نہیں ہے جب تک کہ مجرم یہ سمجھ نہ لے کہ اسے سزا کیوں دی جا رہی ہے۔
سزائے موت دینا اس وقت تک اخلاقی طور پر درست نہیں ہے جب تک کہ مجرم یہ سمجھ نہ لے کہ اسے سزا کیوں دی جا رہی ہے۔

21 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذہنی بیماری شیزوفرینیا کے شکار 50 سالہ امداد علی کی سزائے موت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ امداد علی 2002 میں ایک مذہبی رہنما کے قتل میں ملوث پائے گئے تھے۔

شیزوفرینیا کے لغت میں موجود مطلب اور امرت بھوشن گپتا کے وفاقِ ہندوستان کے خلاف 1976 کے مشہور مقدمے میں ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدِنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان اس نتیجے پر پہنچی کہ شیزوفرینیا دائمی ذہنی مرض نہیں ہے اس لیے اس کو بنیاد بنا کر ملزم کا ذہنی عدم توازن ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

اب جبکہ اس فیصلے کے درست ہونے یا نہ ہونے پر بحث جاری ہے، تو یہ دیکھنا اہم ہے کہ نظامِ انصاف میں ذہنی عدم توازن ثابت کرنا اور اس کی بناء پر کسی شخص کو بری کرنا کس قدر پیچیدہ معاملہ ہے۔

کرمنل لاء میں کسی شخص کو کسی جرم کے لیے قصوروار ٹھہرانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس شخص نے وہ جرم واقعی کیا ہو، اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر عمل کیا ہو، اور اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی بھی وجوہات ہوں۔

پڑھیے: کون ہے مظہر حسین کا قاتل؟

پر کسی ذہنی بیماری میں مبتلا شخص کے لیے جرم کرتے وقت اپنے اقدامات کے نتائج سمجھ پانا ممکن نہیں ہوتا۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران وہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کی اخلاقی باریکیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زیادہ تر ممالک میں کرمنل لاء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اگر کسی مجرم کو ذہنی بیمار ثابت کر دیا جائے، تو اسے اس جرم سے بری کیا جا سکتا ہے۔

مگر ہر ذہنی بیمار شخص کو خودکار طور پر ان کے کردہ جرائم سے بری الذمہ نہیں کیا جاتا۔ ذہنی عدم توازن کی طبی اور قانونی حیثیت میں فرق ہے۔

طبی طور پر ذہنی عدم توازن کا مطلب کسی بھی طرح کی ذہنی بیماری ہو سکتی ہے جس میں پاگل پن جیسے دائمی امراض سے لے کر رویوں کے عارضی مسائل جیسے بائی پولر ڈس آرڈر شامل ہو سکتے ہیں۔

مگر قانونی طور پر ذہنی عدم توازن ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان نہ صرف ذہنی طور پر بیمار ہو، بلکہ جرم کے وقت وہ نتائج کا اندازہ لگانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو۔

مک ناٹن کے قاعدے کے تحت اگر ایک ذہنی بیمار شخص جرم کرتے وقت یہ جانتا ہو کہ وہ جو کر رہا ہے وہ غلط یا خلافِ قانون ہے، تو اسے جرم کی سزا دینی چاہیے۔

امرت بھوشن گپتا کے وفاقِ ہندوستان کے خلاف مقدمے میں تعزیراتِ ہند کی دفعہ 84 کے تحت ذہنی بیماری کی بناء پر بری کیے جانے کی درخواست کو پرکھنے کے لیے یہی ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ بھلے ہی طبی ماہرین نے قرار دیا کہ ملزم شیزوفرینیا کا شکار ہے، مگر ذیلی عدالتوں میں جمع کروائے گئے شواہد نے یہ ثابت کر دیا کہ جرم کرتے وقت وہ اپنے جرم کی نوعیت سے واقف تھے، لہٰذا انہیں قابلِ سزا سمجھا گیا۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں ذہنی بیماریاں اور ہماری بے حسی

ہندوستانی سپریم کورٹ کے کئی دیگر فیصلوں میں یہ قرار پایا ہے کہ ذہنی بیماری کے ساتھ ساتھ جرم پر اکسانے کی وجہ، مجرم کی ذہنی کیفیت کے بارے میں پرانے ریکارڈز، جرم کرتے وقت ان کی ذہنی کیفیت، اور جرم کے فوراً بعد کے حالات جو ان کی ذہنی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوں، (مثلاً شواہد چھپانا یا گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگنا) کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

یوں تو ذہنی عدم توازن کے بارے میں بین الاقوامی قوانین ایسے ہی اصولوں پر قائم ہیں، مگر دنیا کے اس حصے (ہندوستان اور پاکستان) میں اس طرح کے مقدمات میں منصفانہ فیصلہ دینا کچھ وجوہات کی بناء پر مشکل ہو سکتا ہے۔

  • ہمارے ملکوں میں ذہنی امراض کے ماہرین یا ماہرینِ نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ کسی بھی ذہنی کیفیت کو اس قدر قابلِ شرم سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ ابنارمل رویوں کے بارے میں اس طرح کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اس لیے عدالت میں ذہنی عدم توازن ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے، بھلے ہی مجرم ذہنی عدم توازن کا شکار ہو۔

  • مثالی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ جیسے ہی جرم واقع ہو، ایک فارینسک ماہرِ نفسیات تفتیشی افسر کے ساتھ کیس میں شامل ہوجائے۔ ملزم کی پرانی میڈیکل رپورٹس سے اس کے رویوں اور منشیات کے استعمال جیسی چیزوں کا پتہ چلانا، مقتول کے جسم کا پوسٹ مارٹم، ملزم اور اس کے گھرانے سے انٹرویوز کرنے سے ایک مناسب تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس نہ ہی تربیت یافتہ فارینسک ماہرینِ نفسیات ہیں، نہ تفتیشی افسران، اور نہ ہی ذیلی عدالتوں کے ججز، جو اس بات پر زور دیں کہ قانونی مرحلے کے دوران اس طرح کی رپورٹس عدالت میں پیش کی جائیں۔

  • پاکستان اور ہندوستان میں جیلوں کے حالات بھی زیرِ تفتیش قیدیوں کی زہنی حالات بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 2011 میں ہندوستان میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ 30 فیصد قیدی ذہنی بیماریوں کا شکار تھے، جبکہ 70 فیصد یا تو ذہنی بیماریوں کے یا منشیات کے عادی تھے۔ قانونی تعلیم کی کمی اور قیدیوں کی بڑی تعداد کا نچلے طبقے سے تعلق رکھنا بھی ذہنی عدم توازن کی بناء پر بری ہونے میں مشکلات کھڑی کر دیتا ہے۔

امداد علی کے مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ 2012 میں (جرم کے دس سال بعد) سرکاری ڈاکٹروں نے ملزم کو جینیاتی پیرانائڈ شیزوفرینیا لاحق ہونے کی تشخیص کی تھی۔ مگر کیا وہ جرم کے وقت بھی اس بیماری میں مبتلا تھے؟ یہ ثابت کرنا ملزم کا کام ہے۔

اب کیوں کہ امداد علی کے اس سے پہلے کے میڈیکل ریکارڈز موجود نہیں ہیں، اس لیے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ آیا وہ جرم کے وقت بھی شیزوفرینیا کے زیرِ اثر تھے۔ اس لیے ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ ثبوت کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کو ذیلی عدالتوں کا فیصلہ برقرار رکھنے میں غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جانیے: 'جن کو عشق ہو گیا ہے'

عدالت اس جانب توجہ دلانے میں بھی حق بجانب ہے کہ میڈیکل سائنس میں ترقی اور ذہنی بحالی کے پروگرامز نے شیزوفرینیا کا علاج ممکن بنا دیا ہے۔ مگر بھلے ہی شیزوفرینیا کی قابلِ علاج قسم میں مبتلا شخص ایک بالکل نارمل زندگی گزار سکتا ہے، مگر اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کا علاج بالکل ممکن نہ ہو۔

مگر عدالت کا اس ذہنی کیفیت کو صرف 'اسٹریس' یا ذہنی تناؤ کا شاخسانہ قرار دینا بھی منصفانہ نہیں ہے۔ تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ والدین میں شیزوفرینیا کی موجودگی، حمل کے دوران رحمِ مادر کے اندرونی حالات، بچپن میں سماجی طور پر الگ تھلگ ہونا، اور منشیات کا استعمال ان کئی عوامل میں سے صرف چند ہیں جو شیزوفرینیا کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے ہر طرح کے شیزوفرینیا کو الگ طرح سے پرکھا جانا چاہیے، ایک ہی طرح سے نہیں۔

مگر ان کی علاج مکمل ہونے تک سزائے موت ملتوی کرنے کی درخواست وہ چیز ہے جس پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔ پاکستان بین الاقوامی میثاق برائے شہری و سیاسی حقوق کا دستخط کنندہ ہے۔ یہ میثاق اس بات پر زور دیتا ہے کہ جو بھی ممالک سزائے موت پر عمل پیرا ہیں، وہ کسی ایسے شخص کو سزائے موت نہ دیں جو "ذہنی طور پر معذوری کا شکار ہو۔"

چوں کہ ہندوستان بھی اس میثاق کا دستخط کنندہ ہے لہٰذا 2013 میں شتروگھن چوہان کے وفاقِ ہندوستان کے خلاف کیس میں ہندوستانی سپریم کورٹ نے اس میثاق کو بالاتر رکھتے ہوئے یہ قرار دیا کہ ذہنی طور پر عدم توازن اور شیزوفرینیا کے شکار افراد کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔

کیوں کہ سزائے موت کا بنیادی مقصد بدلہ ہے، اس لیے یہ سزا دینا اس وقت تک اخلاقی طور پر درست نہیں ہے جب تک کہ مجرم یہ سمجھ نہ لے کہ اسے سزا کیوں دی جا رہی ہے۔

شیزوفرینیا کے شکار شخص کے لیے اس کے ذہن کی دنیا اتنی ہی حقیقی ہے جتنی کہ ہماری۔ انصاف کا مذاق یہ ہے کہ اس کی ذہنی کیفیت سمجھنے کے لیے کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ایک ذہنی طور پر بیمار شخص کی جانب یہ رویہ ہی حقیقی بیماری ہے، اور یہ لاپرواہی ایک جرم ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں