کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں کے حملے میں جہاں ایک طرف 60 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، وہیں ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی ان اہم سوالات نے جنم لیا کہ آیا سیکیورٹی انتظامات میں ایسی کون سی کمی تھی کہ جس سے حملہ آور آسانی سے اس تربیتی مرکز کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے.

یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے، ماضی میں بھی دہشت گرد نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اسی طرز کے حملے کرچکے ہیں جن میں حال ہی میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش دھماکا، پشاور کے آرمی پبلک اسکول، باچا خان یونیورسٹی اور کراچی کے ہوائی اڈے سمیت مہران بیس پر ہونے والے بڑے دہشت گرد حملے نمایاں ہیں۔

کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حالیہ حملے کے بعد جو بنیادی سوال ابھر کر سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جب بلوچستان حکومت کو 4 دن پہلے انٹیلی جنس اطلاعات مل چکی تھیں تو پھر اُن ضروری اقدامات کو کیوں نظر انداز کیا گیا جن سے اس قسم کے حملے سے بچا جاسکتا تھا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی کارروائی سے متعلق اعلیٰ فوجی افسران نے وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کو پہلے ہی اطلاع دے دی تھی، لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوا۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ 'جب یہ انٹیلی جنس اطلاعات وزیراعلیٰ کے پاس آئیں تو انھوں نے فوری طور پر اس سے متعلق پولیس افسران اور اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا، لیکن دوسری طرف سے بروقت جواب نہیں آیا'۔

انھوں نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کالج حملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس میں تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا اور ہمارا عزم یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی غلطیاں ہوئی ہیں ان کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہم تسلیم کریں، کیونکہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، لہذا ہمیں آگے اور لڑنا ہے۔

کیڈٹس کو واپس کیوں بلایا گیا؟

بلوچستان حکومت کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر چلنے والے کیڈٹ کے خط اور اہلکاروں کو تربیتی مرکز واپس بلانے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سچائی جاننے کے لیے انھوں نے اعلیٰ سطح پر آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی پولیس سے خود رابطہ کیا، جنھوں نے بتایا کہ انہیں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک کورس کی غرض سے ایک ماہ کے لیے واپس بلایا گیا تھا جس میں فوج کی طرف سے کیڈٹس کو تربیت فراہم کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ گذشتہ 2 برسوں سے جاری ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ان کیڈٹس کو ایسے کسی کورس کے لیے بلایا گیا تو پھر انہیں خود اس بارے میں اطلاع کیوں نہیں تھی اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ ایسا کوئی سامان لائے؟ تو انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آیا انہیں کسی نے اس کورس کی اطلاع دی تھی یا نہیں، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ان اہلکاروں نے محرم الحرام کے دوران سیکیورٹی کی ڈیوٹی دی تھی جو انھیں واپس بلانے کی ایک بنیادی وجہ تھی۔

مزید پرھیں: ٹریننگ سینٹر حملہ: ناقص سیکیورٹی انتظامات بڑی وجہ

انوار الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ سوشل میڈیا کی اطلاعات پر کوئی سرکاری وضاحت یا اس کی تصدیق نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم صر ف ایک سوال نہیں بلکہ اس جیسے کئی سوالوں کو زیرِ تفتیش لا رہے ہیں جن سے حملے کی تحقیقت میں مدد مل سکتی ہے۔

تربیتی کالج کے اطراف سیکیورٹی انتظامات اور کوئٹہ پولیس چیف کی جانب سے کچھ عرصہ قبل اس کی چار دیواری بنانے کے حوالے سے کی جانے والی درخواست پر پوچھے گئے سوال پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ یہ ایک دائمی مسئلہ تھا جس کو گذشتہ 13 سال میں کئی پولیس افسران نے اٹھایا تھا،لیکن اس چار دیواری کی فوری تعمیر کے لیے مسئلے کو عوامی سطح پر لانے کے بجائے وزیراعلیٰ کے نوٹس میں لانا چاہیے تھا۔

دہشت گردوں کے سرحد پار افغانستان سے آکر حملہ کرنے کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے ایک دہشت گرد کی لاش دیکھی تو وہ 90 سے 95 فیصد افغان ازبک باشندہ ظاہر ہورہا تھا اور اب تک کی ابتدائی اطلاعات سے یہ واضح ہے کہ حملے میں افغانستان کی سرزمین استمعال کی گئی۔

خیال رہے کہ 24 اکتوبر کی رات 3 حملہ آوروں نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر اس وقت دھاوا بولا جب کیڈٹس آرام کررہے تھے جس کے بعد فائرنگ اور دھماکوں کا آغاز ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ، 61اہلکار جاں بحق، 117زخمی

بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں کے اس حملے میں 60 سے اہلکار ہلاک اور 110 سے زائد زخمی ہوئے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی اور داعش کی جانب سے حملہ آور تینوں دہشت گردوں کی تصاویر بھی جاری کی گئیں۔

واضح رہے کہ رواں برس کوئٹہ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات رونما ہوئے، 28 جون 2016 کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلاء کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Sheri Oct 27, 2016 11:13am
Now all responsible members are giving lame excuses.
Imran Oct 27, 2016 03:42pm
Information thi per dil nai kia kaam karny ka.