پاکستان سے امارات ہجرت کے ابتدائی برسوں میں جن چیزوں کو میں نے شدت سے یاد کیا ان میں سے ایک پودوں کی ہریالی، گلاب، گیندے، سدابہار کے دلکش رنگ اور یاسمین، رات کی رانی کی بھینی بھینی مہک شامل تھی۔ وہ سب میرے صحراؤں کے سفر پر نکلنے کے ساتھ ہی اپنے زرخیز مٹی کے وطن میں سمندر کے اُس پار ہی رہ گئے۔

وہ چھوٹے بڑے گھروں کی چھوٹی چھوٹی کیاریاں اور نرسریاں، جن کی چند فٹ کی جگہ میں آپ پھولوں بھری بیلوں، پودوں اور درختوں کے ساتھ یا پکے فرش پر گملے سجا کر اوپر سے نیچے تک، بس زرا سی توجہ کے ساتھ سبزے اور ہریالی سے بھر سکتے ہیں، وہاں شاہانہ گھروں کے لان اور گارڈن بھی ہیں جہاں اوپر سے نیچے تک مختلف رنگوں اور اجناس کے جتنے بھی پودے اور درخت اگے ہوتے ہیں، بس تھوڑے پانی اور ہلکی سی گوڈی کی مہربانی سے وہاں بستے لوگ سال کے کم سے کم دس ماہ میں اس ہریالی سے آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں اور مہک سے محظوظ ہوتے ہیں جبکہ اپنے ماحول پر احسان الگ سے ہو جاتا ہے۔

اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شیشم، سفیدے، صنوبر، شاہ بلوط اور پیپل کے طویل القامت، سبز و گھنے سایہ دار درخت جو سال کا زیادہ تر حصہ اپنے گھنے سائے کو بڑی سخاوت سے لٹاتے رہتے ہیں اور پھر جب جاڑہ پڑنے لگتا ہے اور گھاس سے بھرے کھلے میدان ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں سے گرتے زرد زرد پتوں سے بھرنے لگتے ہیں. قدرت کے رنگ اور پھولوں، پودوں اور درختوں کی حیات کی ٹھنڈی میٹھی سانسیں، جو ہماری بصارتوں کو فرحت اور احساسات کو نرم گرم راحت بخشتی ہیں.

عرب امارات کی زمین انسانی ہاتھ کی کرشمہ سازیوں سے بھری ہوئی ہے مگر نباتاتی حیاتیات کی زندگی سے خاصی حد تک محروم ہے. پاکستان کے ہر دوسرے گھر کی دو فٹی کیاری میں اگ آنے والا خوشبو سے بھرا گلاب یہاں صرف مارکیٹوں یا فلاور شاپس پر ہی دستیاب ہوتا ہے جس کے ایک پھول کی قیمت میں آپ کے ایف سی کا برگر کھا سکتے ہیں۔ کتنی سستی ہیں نا یہ خوبصورتیاں اور خوشبوئیں اپنے پاکستان میں؟

معجزہ باغ دبئی — تصویر صوفیہ کاشف
معجزہ باغ دبئی — تصویر صوفیہ کاشف

امارات کی دو جدید ریاستوں دبئی اور ابو ظہبی کے مرکز میں بلند و بالا عمارتوں اور جدید طرز زندگی کے بیچ رہنے والوں کے اپارٹمنٹس میں اتنی جگہ ہی نہیں کہ وہاں انسانوں کے ساتھ درخت اور پودے بھی پالے جائیں۔

اگر آپ مرکز سے ذرا ہٹ کر کسی کھلے ولا میں رہائشی کالونیوں میں قیام پذیر ہیں جہاں کیاریوں کی وافر جگہ بھی آپ کے پاس موجود ہے تو بھی یہاں کی ہوائیں، موسم اور سخت پتھریلی مٹی اس قابل نہیں کہ آپ کی جمالیاتی حس کی تسکین کا خاطر خواہ انتظام ہو سکے.

دوسری جانب پاکستان کے غریب سے غریب گھر میں بھی سبزے کی رحمت مفت میں اور بغیر کسی سخت محنت کے باآسانی اور فی سبیل اللہ اتر آتی ہے۔ وہ پھلدار درخت، پھولدار بیلیں اور انسان کے جمالیاتی حس کو تسکین دینے والی خوبصورتیاں اور لہلہاتی ہریالی، یہ سب ہمارے دیس میں قدرت کی مہربانی ہی تو ہے.

پاکستان میں آپ اپنے حصے کی سبزی اور پھل اپنی ایک چھوٹی سی کیاری میں معمولی خرچ اور ذرا سی زحمت کے ساتھ اگا سکتے ہیں۔ مگر نہ جانے کیوں اینٹوں اور پتھروں کو عالیشان مرتبے سے تعبیر کیا جانے لگا ہے اور گھر کی اگی سبزیوں اور پھلوں کو دیہاتی پن قرار دے کر بازار سے فارم ہاؤسز کی زہریلی سوغاتیں خرید کر خوش ہوا جاتا ہے.

گھر کی اگائی گئی، زہریلی کھادوں اور اسپرے سے محفوظ یہ خالص سوغات جو پاکستان سے باہر عام سبزی سے دوگنی قیمت پر ملتی ہے، پاکستان میں مفت میں مل سکتی ہے، مگر اس کی ذرا قدر نہیں.

دنیا کی ایک بڑی منڈی اور مرکز بن جانے والے امارات میں کم سے کم دس اور زیادہ سے زیادہ بارہ گھنٹے کے چمکتا سورج اور شہر کے لاکھوں اے سی پلانٹس کے باعث پیدا ہونے والا شدید گرم موسم سبزے کے لیے موزوں نہیں.

ابو ظہبی کی ایک سڑک — تصویر صوفیہ کاشف
ابو ظہبی کی ایک سڑک — تصویر صوفیہ کاشف

عرب امارات کی چمکتی ریت کو یہاں کی خوبصورت عمارتوں اور جدید طرز سے بنی سڑکوں نے چھپا دیا ہے اور ان پر نئی دنیا کو آباد کر دیا ہے۔ یہاں پر کھلے علاقوں کے بڑے بڑے ولاز کے وسیع لانز اور گراونڈز بھی اکثر جھاڑیوں یا کچھ جڑی بوٹیوں سے بھرے نظر آتے ہیں جب تک کہ وہ کسی مہنگے ہاؤسنگ اسکیم کا حصہ نہیں بن جاتے۔ اس کی قیمت کے ساتھ آپ دنیا کی سب سے مہنگی ہریالی کی قیمت بھی دے چکے ہوتے ہیں۔

کہیں جو کوئی صاحب ذوق شخص اپنے لان میں مناسب سبزہ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے شہر العین سے زمین کے لیے مخصوص قسم کی زرخیز مٹی منگوانی پڑتی ہے، پانی، کھاد اور اس کی مسلسل اور سخت دیکھ بھال کا خرچہ سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں پڑتا ہے، چنانچہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر بڑے بڑے ولاز رکھنے والے عربی عوام کے لان میں یا تو جھاڑیاں اگتی ہیں یا کجھور کے درخت.

لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ یہاں نباتاتی حیات کا بحران ہے۔ آفرین ہے یہاں کی حکومتوں پر جو ہر سڑک کے اطراف، شہر کے بیرونی اور اندرونی علاقوں میں موجود مختلف جگہوں پر جتنا بھی عرصہ اور جن اقسام کا سبزہ اُگیا جانا ممکن ہوتا ہے تو وہاں اپنی بھرپور کوششوں سے سبزہ اگا دیتی ہے اور یوں شہر میں ہریالی پیدا کر کے سبز خوبصورتی بخشی گئی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہر علاقے میں خوبصورت سبزے سے بھرے گارڈنز بچوں اور خاندانوں کے لیے کھیلنے اور گھومنے پھرنے یا باربی کیو کے لیے موجود ہیں، جن میں گھومتا فرد یہ بھول سا ہی جاتا ہے کہ سبزے کی تخلیق کے لیے صحرا کی یہ زمین کس قدر کٹھور ہے.

صحرا نورد لوگوں کے عرب امارات کا ایک بڑا بجٹ اس ہریالی کو پیدا کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے وقف ہے۔ شہر بھر میں اور شہر سے باہر اس نازک خوبصورتیوں کو اگانے اور ان کی افزائش کے لیے سعی سارا سال جاری رہتی ہے۔

اس کوشش کو مزید فائدہ مند بنانے کے لیے تقریباً ہر ریاست میں ہر طرح کے پھولوں اور سبزے سے بھرے گارڈنز بنائے گئے ہیں۔ ان میں دبئی کا معجزہ باغ (miracle garden) اور العین کا جنت باغ (paradise garden) شامل ہیں، جن میں ہر رنگ اور صورت کا سبزہ اور پھولوں کی خوبصورتی کو لوگوں کی جمالیاتی حس کی تسکین اور حکومت کے لیے پیسہ کمانے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے.

ابو ظہبی کی ایک سڑک — تصویر صوفیہ کاشف
ابو ظہبی کی ایک سڑک — تصویر صوفیہ کاشف

بارشوں اور بادلوں کے موسم میں ان پھول اور رنگوں سے بھرے باغوں میں پھرنا کسی بہشتی سفر سے کم نہیں ہوتا اور بلامبالغہ اس جنت میں پھرتے اپنے وطن پاکستان کی وہ ہزاروں جنتیں یاد آنے لگتی ہیں جن کو ہم معیشت کے لیے استعمال کرنا تو دور کی بات، ان کے وجود کو بھی اچھی طرح قائم نہ رکھ سکے ہیں.

پاکستان جیسی سبزہ اگاتی اور خوبصورتیاں اگلتی زمین پر رہنے والے فی سبیل اللہ ملنے والے سبزے اور ہریالی سے اور اس کی قدر سے ناآشنا ہیں اور انہیں کاٹ کر گھر، سڑکیں اور عمارتیں بناتے چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف کشمیر گلگت، چترال، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، شمالی علاقہ جات، راجن پور سمیت کتنی ہی جنتوں کے نمونے علاقوں میں ملکی سیاح آلودگی کا ڈھیر لگاتے جا رہے ہیں جو سر سبز و شاداب علاقوں کے حسن کو بدنما کر دیتی ہے۔

بس قدرت اپنی مدد سے وہاں کی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ملک میں نہ کسی دور کے حکمرانوں اور نہ ہی عوام میں سے کسی نے خدا کی رحمت کے ان کرشموں کو گود لینے کی کوشش کی اور نہ کبھی کوئی ان کی حفاظت اور ترقی کے لیے آگے بڑھا.

ان بنی بنائی جنتوں کے علاوہ پاکستان کے کئی دیگر علاقے بھی ہریالی اور خوبصورتی کی پناہ گاہیں بن سکتے تھے مگر ہم نے اپنی تمام تر طاقت صرف پتھروں، سڑکوں اور پُلوں تک محدود رکھی.

پاکستان کی حدوں میں نہ جانے کتنی جنتیں تحلیل کے سفر میں ہیں اور کتنی جنم لینے سے پہلے ہی اجڑ چکی ہیں مگر سب سے زیادہ اس بات کا افسوس ہے کہ پاکستان کے باسیوں کو اس کا شعور نہیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

asif raja Nov 03, 2016 06:20pm
صوفیہ کاشف'me ap k kalam ka hamesha wait krta hon par kr dili skon milta ha, Ap ki tehriron se bhot koch sikhne ko milta ha, Allah ap ko hamesha ase hi likhne ki himat de Ameen or Allah ap ko sehat or khushi b de (Aameen)
irfan Nov 04, 2016 02:08am
بالکل درست کہا آپ نے ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے بہت سی چیزوں کا شعور ہی نہیں ہے۔ ہر درخت کی جڑ میں پانی کا پائپ پہچنا اور اس کی دیکھ بھال کر کے صحرا کو چمن میں بدلنے والے بدووں کے ملازم کوئی اور نہیں ہمارے ہی لوگ ہیں۔