پاناما اسکینڈل کے حل کے لیے اب تمام نظریں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ پر مرکوز ہیں۔ بلاشبہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے لیے یہ معاملہ ایک بڑا ہی سنجیدہ چیلنج ہے۔ اس مسئلے نے ایک ایسا سیاسی طوفان پیدا کر دیا ہے جس سے موجودہ سیاسی نظام درہم برہم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔

پہلے تو عدالت اس معاملے سے پیچھے رہی، مگر متعلقہ ریاستی اداروں کی جانب سے اسکینڈل، جس میں وزیر اعظم کا گھرانہ شامل ہے، کے معاملے پر کارروائی میں ناکامی کے بعد بالآخر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے مداخلت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کیس کا نتیجہ ہی ملک کے سیاسی مستقل کی راہ متعین کرے گا۔ مگر اب بھی اس معاملے کے حل کی راہ میں چند رکاوٹیں حائل ہیں۔

اگرچہ پاناما پیپرز اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام پر حکومت اور پی ٹی آئی دونوں متفق ہیں، مگر کیا دونوں فریق انکوائری کی شرائط (ٹی او آر) سے متعلقہ متنازع مسائل پر بھی متفق ہوں گے؟ حکومت اور حزب اختلاف گزشتہ 7 ماہ سے اس معاملے پر متفقہ نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہی ہیں۔

ایسی معلق صورتحال میں پھر سپریم کورٹ خود ٹی او آرز مرتب کرے گی۔ اگرچہ تمام فریقین کو قائل کرنا مشکل ہوگا، مگر کسی بھی ماورائے آئین مداخلت سے بچنے کے لیے صرف سپریم کورٹ کی جانب سے ثالثی کردار ہی اس مسئلے سے نکال سکتا ہے۔

پڑھیے: پیش ہے ٹرک کی ایک اور بتی

ایک چینل کے مطابق عدالت نے یہ ریمارکس دیے ہیں کہ طاقت کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ الٹنا غداری کے زمرے میں آئے گا۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ بڑی ہی غیر معمولی بات ہے۔ مجوزہ کمیشن کے اختیارات اور ساخت پر کافی کچھ منحصر ہے۔ مبہم مینڈیٹ کے ساتھ ایک بے اختیار کمیشن اس بحران کو مزید بگاڑ دے گا۔ سو اس کی ذمہ داری بھی اب سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے۔

اس میں تعجب نہیں کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد عمران خان کا دھرنے کا فیصلہ واپس لینے کے ساتھ سیاسی گرما گرمی میں فوری طور پر کمی واقع ہوئی۔ وہ درست طور پر اسے اسکینڈل پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے ایک ان کی مضبوط مہم کی فتح قرار دے سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت کو صورتحال کی سنگین نوعیت کی وجہ سے اپنے محتاط مؤقف کو ایک طرف رکھنے اور مداخلت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

پی ٹی آئی کی حکمت عملی شاید وقتی طور پر کارآمد ثابت ہو مگر ان کی جنگ ختم ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ گزشتہ دو دنوں کے واقعات اور طاقت کا بے رحمانہ استعمال حکومت کے سنگین سیاسی بحران سے نمٹنے کے حوالے سے سوال کھڑے کر دیتا ہے، جس میں کافی محتاط طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پانامہ تحقیقات کا مسئلہ قلیل وقت میں حل نہیں ہو سکتا، اس کی بڑی وجہ عدالتی کمیشن اور اس کے مینڈیٹ متعین کرنے پرحکومت کی ہٹ دھرمی اور ان کی اکڑ ہے۔ مالیاتی الزامات پر تحقیقات کے لیے ذمہ دار دیگر ریاستی اداروں کی مفلوج حالت بحران کو مزید بڑھا دے گی۔ بلاشبہ حکومت کے پاس سپریم کورٹ کی رائے پر متفق ہونے کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں رہ جاتی۔

مگر حکومت کے اندر اس حوالے سے ضرور خدشات موجود ہوں گے کہ آیا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جن تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، ان کا فوکس وزیرِ اعظم کے خاندان پر ہوگا یا نہیں۔ ان کا ایک اور خدشہ تحقیقات کے ٹائم فریم کو لے کر ہو سکتا ہے، کیوں کہ پی ٹی آئی کی اخلاقی فتح شریف حکومت کے لیے اچھا شگون ثابت نہیں ہوگی۔

عمران خان دارالحکومت بند کرنے میں کامیاب نہ ہوئے ہوں، مگر بوکھلائی ہوئی انتظامیہ نے باکل یہی کیا ہے۔ اور نواز شریف کے اپنے اعصاب پر قابو کھو دینے کے پیچھے ایک وجہ بھی ہے۔ ان کی سیاسی قوت کا مرکز داؤ پر لگا ہوا تھا۔ عمران خان ان کے لیے مزید خطرناک دشمن اس لیے بھی ہیں کیوں کہ وہ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ — جو تین دہائیوں سے صوبے میں شریف خاندان کے سیاسی اثر و رسوخ کے پیچھے حقیقی طاقت ہے — کو تقسیم کر دینا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا عمران خان کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو شدید زک اسی وقت پہنچائی تھی جب وہ 2013 کے انتخابات میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھری۔ پاناما پیپرز اسکینڈل اور نواز شریف کے فوج کے ساتھ تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پی ٹی آئی کو مسلم لیگ ن کے گڑھ میں مزید پیش قدمی فراہم کرنے کے لیے موقع فراہم کیا۔ پنجاب میدانِ جنگ ہے۔ کچھ مبصرین اسے جی ٹی روڈ کی جنگ بھی قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ طاقت کی رسہ کشی کا فیصلہ اسی سے ہوگا۔

1999 میں فوجی مداخلت کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے باوجود صوبے کی سول بیوروکریسی، عدلیہ اور دوسرے طاقتور حلقوں سے نواز شریف کی حمایت ختم نہیں ہوئی تھی، لہٰذا 2008 کے انتخابات کے بعد ان کا اقتدار میں واپس آنا مشکل تھا بھی نہیں۔ 2013 کے انتخابات میں پارٹی نے پنجاب میں اپنی طاقت پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہوئے وفاق میں اپنی حکومت بنا لی، اور اس طرح پی ٹی آئی کے مشکل چیلنج کا سامنا کیا۔

مگر الیکشنز نے صوبائی طاقتور حلقوں کے درمیان پڑتی ہوئی دراڑ کو واضح کر دیا، وہ طاقتور حلقے، جو ماضی میں پیپلز پارٹی سے اقتدار کی رسہ کشی میں نواز شریف کی مکمل حمایت کرتے تھے۔

اب اگر پنجاب سے ایک اور جماعت متبادل کے طور پر سامنے آتی ہے تو وہ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر انحصار نہیں کر سکتے۔ بھلے ہی پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائی ہے، لیکن اس کی توجہ اب بھی بنیادی طور پر پنجاب پر ہے۔

حکومت کے لیے عمران خان کی انتھک کوششیں اور ریاستی اداروں پر حملوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ میں اب بھی ان کی خاصی حمایت موجود ہے۔ پاناما لیکس اور بگڑتے ہوئے سول ملٹری تعلقات نے عمران خان کو دارالحکومت کی جانب ایک نئی پیش قدمی کے لیے موقع فراہم کیا، مگر نواز شریف نے اس بار پی ٹی آئی کے کارکنان کو اتنی آسانی سے اسلام آباد نہیں آنے دیا۔

اس کے بجائے انہوں نے جارحانہ دفاع کی حکمتِ عملی اپنائی۔ اس دوران انہوں نے خبر لیک ہونے سے پیدا ہونے والے سول ملٹری تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات کو برطرف کیا ہے اور 'ملوث' افراد کے خلاف ایکشن لینے کا وعدہ کیا ہے۔ جیسا کہ حکومت نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ خبر جھوٹی ہے، اگر یہ واقعی جھوٹی ہوتی تو معاملات اس حد تک خراب نہ ہوتے۔

فوجی قیادت کی اگلے چند روز میں تبدیلی نے شاید انہیں مسئلے کو لٹکائے رکھنے کے لیے کچھ اعتماد فراہم کیا ہے۔ ہاں اب سیاسی تناؤ کم ہوگیا ہے، مگر سیاسی ٹکراؤ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ حقیقتاً نواز شریف کے امتحان کا وقت ہے۔ اگلے چند ماہ بہت اہم ہیں۔ ان سمیت اور کئی مستقبلوں کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 02 نومبر 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں