خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات آئے دن الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی پشاور کے خواجہ سرا اپنے ایک ساتھی کا جنازہ پڑھانے کے لیے کسی مولوی کے پاؤں ہی پڑ رہے ہوتے ہیں کہ سیالکوٹ سے ایک نئی کہانی سامنے آجاتی ہے۔

انہی دردناک کہانیوں کے سلسلے کو توڑنے کے لیے پاکستان کے ایک نجی انٹرٹینمنٹ چینل سے ان دنوں ڈرامہ سیریل "خدا میرا بھی ہے" نشر کیا جا رہا ہے، جس میں ایک امیر کبیر خاندان کے ایک رومانوی جوڑے کے گھر پہلا بچہ خواجہ سرا پیدا ہو جاتا ہے۔

ڈرامے میں ایسے حساس موضوع کو نہایت باریکی سے چھیڑا گیا ہے، جہاں خواجہ سرا کی پیدائش اور والدین کو کھا جانے والی ایک عجیب جذباتی اذیت کی خوب منظر کشی کی گئی ہے۔

"خدا میرا بھی ہے" کی ڈرامہ نگار اسماء نبیل کو جہاں اس معاشرتی موضوع کو اٹھانے پر شاباشی مل رہی ہے جس کی وہ مستحق بھی ہیں، وہیں کچھ افراد ان کی ٹیم کو واہی تباہی سنانے سے بھی گریزاں نہیں۔

بعض کو یہ موضوع ہی واہیات لگا، بعض نے تیسری جنس کی شرعی حیثیت پر اپنی ادھوری معلومات کا رعب جمایا، اور چند تو اناٹومی کی جدید سائنس کے ماہر بنتے ہوئے ایسی کسی بھی جنس کے وجود سے ہی انکار کر دیا، حالانکہ سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں کے زچہ بچہ وارڈز سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ہر ماہ دو ماہ بعد کوئی نا کوئی کیس تیسری جنس کا ہوتا ہے۔

اگرچہ بعض کیسز میں جنس کی کنفیوژن کا دواؤں یا سرجری سے علاج کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے، مگر خواجہ سراؤں کی پیدائش سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ایسے کیسز میں عموماً والدین ایک بار اپنا ٹرانس جینڈر نومولود بچہ ہسپتال سے لے کر جائیں تو انہیں پیدائش کے بعد ابتدائی چیک اپ کروانے نہیں لاتے، جس سے یہی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ وہ بچہ خواجہ سراؤں کے کسی گرو کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

اسماء نیبل مانتی ہیں کہ چبھتے موضوعات کو چھیڑا جائے گا تو تکلیف بھی ہوگی اور ردِ عمل بھی آئے گا، جس کے لیے وہ اور ان کی ٹیم تیار ہیں، مگر ایک حوصلہ افزاء بات یہ بھی ہے کہ اس ڈرامے کی ٹیم کو اب 'بے نام' پیغامات اور ای میلز موصول ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

مثلاً ایک ٹرانس جینڈر نے اسماء کو ای میل میں بتایا کہ وہ اس وقت ایک کامیاب انجینیئر ہیں، مگر ان کے والدین نے جنس کی شناخت بچپن سے ہی چھپائے رکھی اور بغیر اجازت ان کے جسمانی اعضاء نارمل بنانے کے لیے بچپن سے لڑکپن تک سرجری کرواتے رہے جس سے وہ آج بھی خود کو زخمی محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے ای میل میں لکھا کہ "کم از کم ہمیں ہمارے جسم کی ملکیت تو دی جائے۔"

جب کبھی بھی معاشرے کے کسی بھی تلخ، بے حس اور دردناک پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے تو معاشرے کے کچھ جابر اور استحصالی عناصر اپنے کھوکھلے اور غیر انسانی دعووں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور خود ساختہ اور خود غرض تشریحات کی چیخ وپکار کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے مظلوم طبقے کی آہ و بکا سسکیاں بن جاتی ہیں اور جبر و استحصال کا تسلسل جاری رہتا ہے۔

ایسے معاشرے میں اس حساس اور حقیقی موضوع پر ڈرامہ تخلیق کرنے پر تنقید اور گالیاں ایک عام سی چیز ہے، سو اب ڈرامہ ٹیم کو بھی گالیاں پڑ رہی ہیں، مگر دوسری جانب پروڈکشن ٹیم کو اب اس موضوع سے جذباتی وابستگی ہو چکی ہے۔

معروف اداکارہ عائشہ خان ڈرامے میں ٹرانس جینڈر نومولود کی ماں کا مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈرامہ کریو کو یہ مشکل درپیش ہے کہ ڈرامے کی ریکارڈنگ ختم ہو جاتی ہے مگر عائشہ پھر بھی رو رہی ہوتی ہیں۔

عائشہ کہتی ہیں کہ اس کردار کی ادائیگی سے وہ جذباتی خلل کا شکار ہوئی ہیں اور اب سمجھ آ رہا ہے کہ ٹرانس جینڈر پیدا ہونا تو زندہ درگور ہونے کے مترادف ہے، مگر ایک خواجہ سرا کو پیدا کرنا والدین کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہے۔ اصل تکلیف یہی ہے کہ والدین کو شدید دکھ اور تکلیف ان کے ٹرانس جینڈر بچے سے زیادہ معاشرے سے ملتی ہے۔

ڈرامہ سیریل ’خدا میرا بھی ہے'
ڈرامہ سیریل ’خدا میرا بھی ہے'

ڈرامہ نگار اسماء نبیل کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اگر والدین اپنے معذور بچوں کو ان کی تمام تر جسمانی یا ذہنی معذوریوں کے ساتھ اپنا سکتے ہیں تو ایک ذہنی طور پر صحتمند مگر ٹرانس جینڈر بچے کو کیوں سگنلز اور چوک چوراہوں پر تالیاں بجا کر بھیک مانگنے اور اپنا جسم بیچ کر پیٹ بھرنے کے لیے گروؤں کے حوالے کر دیا جاتا ہے؟

کیوں نہ ہمارے والدین، ہمارے گھرانے اور اس معاشرے کا ہر طبقہ اپنی غلط فہمیوں کو ایک جگہ رکھ کر انہیں بھی اپنا ہی ایک حصہ سمجھ کر اپنانے لگیں۔ کیوں نہ ہسپتالوں کے کاغذات میں بھی بچے کی جنس کے لیے تین آپشنز موجود ہوں، کیوں نہ اسکولوں کالجوں میں ایسے بچوں کی تیسری جنس چھپانے کے بجائے بتانے میں کوئی ذہنی کوفت محسوس نہ ہو۔

جہاں ہر نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینل پر صبح سویرے گوری رنگت کی تراکیب اور شادی سیزن سارا سال چلتا ہے اور جہاں سارا دن، ساری شام، ساری رات پاکستان کے ڈرامہ چینلز رومانس، مظلوم عورت، بھلکڑ گھر والی اور دو شادیوں والے مرد کی کہانیاں الاپتے رہتے ہیں، ایسے میں ڈرامہ "خدا میرا بھی ہے" نے معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے جو کہ ایک خوش آئند اور قابلِ تعریف اقدام ہے۔

اگرچہ ہم ان افراد کو باعزت قبولنے کی معاشرتی پختگی سے کوسوں دور سہی مگر کم از کم یہ تو ہوا کہ اب ہم اس موضوع پر بات کرنے لگے ہیں۔ کاش اسماء نبیل کی کاوش رنگ لائے اور ان بے نام آوازوں کو بھی پہچان مل جائے۔

تبصرے (6) بند ہیں

zeeno Ali Nov 18, 2016 09:13am
یہ زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے جس کو انسان بالخصوص پاکستانی عوام چاہ کر بھی نا تو سمجھ سکتے اور نا اس کو تسلیم کر سکتے ہیں. آج کل کے جدید دور میں جدھر شعبے میں کرپشن عام ہے تو معاشرے میں کچھ مرد حضرات اس طرح کی لیزر اور تھرمو سیجریس کروا کر اپنی جنس اور جسم میں تبدیلیاں رونما کر لیتے ہیں کہ بظاہر وہ خواجہ سرا لگیں جس کی وجہ سے حقیقی افراد کا نام بھی بدنام ہو رہا ہے.
Known Stranger Nov 18, 2016 10:26am
Brilliant effort by Uffat, Drama bhi zabardast hai or iss main dia jane wala sabaq bhi samjhnay ki zaroorat hai bass, jahan aap ko achay tabsaray miltay hain waheen tanqeed se bhi inkaari nahi hona chahye.
javaid Nov 18, 2016 12:14pm
finally some one is here to remind people that 3rd generation are also humans. be kind with them i respect your thoughts. Appreciated you work carry on. learning for those who thinks that just they are humans.
Muhammad Ibrahim Nov 18, 2016 12:58pm
I havent seen Drama.But it is a good effort and wakeup call for our society.Excillent written by Madam Iffat. our media can/shold bring this issue in light and Drama is aa good way to educate .
اختر Nov 19, 2016 03:23pm
ہم دوغلی اور منافق قوم ہیں . معاشرے کی تلخ حقیقتوں سے نظر چراتے ہیں بلکہ ان پر بات کرنا بھی پسند نہین کرتے.
حمیرا Nov 23, 2016 11:30am
ایک اور تکلیف دہ پہلو بھی ہےکہ ماں باپ معاشرےٹکر لے کر اپنے بچے کا تحفظکریں تو بھی ان کے لیے اپنے بچے کو اپنے ساتھ رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ نومولود ٹرانس جینڈرز خود اس پوری برادری کا ذریعہ آمدنی ہوتے ہیں اس لیے وہ ان بچوں کی بو سونگھتے پھرتے ہیں اور جیسے ہی انھیں خبر ملتی ہے کہ کسی کے گھر ٹرانس جینڈر پیدا ہوا ہے وہ حق جماتے ہوئے ڈھول تاشوں کے ساتھ اسے لینے پہنچ جاتے ہیں۔ اگر والدین انکار کریں تو انھیں دھمکایا جاتا ہے اور سنگین نتتائج کی دھمکیاں ہی نہیں دی جاتیں بلکہ ان پر کڑی نگرانی رکھ کر بچے کو اغوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ والدین بچے کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگائیں اسے پروں میں چھپا کر رکھیں تو بھی اسکول کےے راستے یا کسی بھی اور ذریعے سے وہ بچےکو اٹھا کر چلتےبنتے ہیں اور بچہ راتوں رات دور دراز شہروں کے خواجہ سراؤں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ مانا سوسائیٹی ظالم ہےلیکن خواجہ سراؤں کےاپنے نمائندےبھی تومالی فوائدکےلیے ایک بچےکواسکے والدین سےجداکردیتےہیں۔ جسم فروشی بےعزتی اور استحصال کی اسی دلدل میں اپنےہم جنسوں کوڈالنےوالےیہ خود بھی ہوتےہیں۔ تومحض معاشرہ،والدین کیوں ذمہ دار؟