Dawnnews Television Logo

ٹریکنگ: آسمان پر نگاہیں

پیٹر کو سب سے زیادہ پرجوش دنیا کے بلند ترین مقامات پر ڈرون کیمرے کی مدد سے حسین نظاروں کی تصاویر اتارنے نے کیا۔
اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2016 02:32pm

جمہوریہ چیک کے فوٹو گرافر پیٹر جان جوراکا نے پاکستان کا سفر اس لیے کیا تاکہ وہ اونچائی سے کی جانے والی فوٹوگرافی کا ورلڈ ریکارڈ توڑ سکیں۔

پاکستان کے شمالی علاقے پہاڑوں اور اپنے خوبصورت نظاروں کے حوالے سے خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔ ہندوکش، ہمالیہ اور پہاڑوں کے شیدائی افراد کا خواب قراقرم کے عظیم پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ دنیا کی کئی بلند ترین پہاڑ یہیں واقع ہیں۔

لیکن جمہوریہ چیک کی چارلس یونیورسٹی آف پراگ کے سائنسدان پیٹر جان جوراکا کو جس چیز نے پاکستان کے حسین نظاروں کی کھوج پر مجبور کیا وہ دنیا کے بلند ترین مقام پر فوٹوگرافی کا ریکارڈ قائم کرنا تھا۔

پاکستان شمالی علاقہ جات اپنے پہاڑوں کے حوالے سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں—فوٹو: پیٹر جان جوراکا
پاکستان شمالی علاقہ جات اپنے پہاڑوں کے حوالے سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں—فوٹو: پیٹر جان جوراکا

پیٹر جنوبی افریقا، لیسوتھو، مصر، یوگنڈا، منگولیا، گرین لینڈ، کیوبا، روس اور جرمنی کے بےشمار فوٹوگرافی اور فلم سازی کے منصوبوں کے لیے کام کرچکے ہیں، لیکن جس چیز نے پیٹر کو سب سے زیادہ پرجوش کیا وہ دنیا کے بلند ترین مقامات پر ڈرون کیمروں کی مدد سے حسین نظاروں کی تصاویر اتارنا تھا۔

جیسے کہ پیٹر خود بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا ڈرون یوگنڈا، جنوبی افریقا اور لیسوتھو میں بھی اڑایا لیکن کچھ ایسا تھا جس کی کمی انہیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ان سب سے مطمئن ہونا چاہیے تھا لیکن میں نہیں تھا، میں کچھ زیادہ بڑا اور بہتر کرنے کے انتظار میں تھا، میں کوئی بڑا پراجیکٹ کرنا چاہتا تھا، ایک پراجیکٹ جتنا بڑا ہوسکتا ہو اتنا بڑا اور پھر اس کا خیال میرے ذہن میں آگیا‘۔

فوٹوگرافر کی خواہش تھی کہ وہ کوئی بڑا پراجیکٹ کریں — فوٹو: پیٹر جان جوراکا
فوٹوگرافر کی خواہش تھی کہ وہ کوئی بڑا پراجیکٹ کریں — فوٹو: پیٹر جان جوراکا

پیٹر کے بتانے سے ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب ہونا قسمت کی بات تھی، جمہوریہ چیک کے کوہ پیما کلارا کولوچووا نے ایک روز انہیں فون کیا اور دریافت کیا کہ کیا وہ کے ٹو کے کوہ پیمائی کے تجربے کا حصہ بننا چاہیں گے؟

پیٹر کو اس تجربے کے لیے حامی بھرنے میں زیادہ دیر نہ لگی اور وہ کافی خوش ہیں کہ وہ پاکستان کے سفر پر نکل پڑے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کے ٹو ایک صوفیانہ مرکز ہے جو ہم سب کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، میں یہ مانتا ہوں کہ سفر سے پہلے میرے کچھ شبہات تھے، لیکن میرا تجربہ بہت شاندار رہا، میں پاکستانی لوگوں کی گرمجوشی، رحم دلی اور انفرادیت کو سراہتا ہوں، میں اپنے گھر والوں کو بھی وہاں لے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ وہ بھی یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں‘۔

پیٹر پاکستان آنے کے تجربے کو ایک خوشگوار تجربہ قرار دیتے ہیں —فوٹو: پیٹر جان جوراکا
پیٹر پاکستان آنے کے تجربے کو ایک خوشگوار تجربہ قرار دیتے ہیں —فوٹو: پیٹر جان جوراکا

پاکستان آنے سے قبل، سب سے اونچا مقام جہاں پیٹر نے فوٹوگرافی کی، آسٹریلین ایلپس کی 3 ہزار میٹر کی اونچائی تھی۔

دنیا کے بلند ترین مقام پر فوٹوگرافی کا تجربہ پیٹر کو پرجوش کردیتا تھا —فوٹو: پیٹر جان جوراکا
دنیا کے بلند ترین مقام پر فوٹوگرافی کا تجربہ پیٹر کو پرجوش کردیتا تھا —فوٹو: پیٹر جان جوراکا

پیٹر کو یقین نہیں تھا کہ ان کے پاس موجود آلات اس سے اونچے مقامات پر کام کریں گے یا نہیں کیونکہ کے ٹو پہاڑ کی چوٹی 8 ہزار 611 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے، تاہم ان کے لیے یہ مقام گنیز بک میں اپنا نام درج کروانے کے لیے بہترین تھا۔

آخر پاکستان کے پاس دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کے اہم سلسلے موجود ہیں، یہاں108 پہاڑی چوٹیاں ایسی ہیں جو 7 ہزار میٹر سے بلند ہیں جبکہ لاتعداد پہاڑوں کی اونچائی 6 ہزار سے اوپر ہے۔

دوسری جانب یورپ، جہاں روس میں سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایلبرس موجود ہے اور اس کی اونچائی صرف 5 ہزار 642 میٹر ہے۔

ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کی خواہش پیٹر کو کے ٹو تک لے آئی —فوٹو: پیٹر جان جوراکا
ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کی خواہش پیٹر کو کے ٹو تک لے آئی —فوٹو: پیٹر جان جوراکا

پیٹر کو یہ بھی خوف تھا کہ کم درجہ حرارت کی وجہ سے ہوسکتا ہے ان کے ڈرون کی بیٹریاں کام کرنا چھوڑدیں، کیونکہ اس سے پہلے تک جس کم ترین درجہ حرارت پر انہوں نے ڈرون کا استعمال کیا وہ 18.5 سینٹی گریڈ تھا۔

انہیں پہاڑ کی چوٹی پر ہوا کے کم دباؤ کی بھی فکر تھے، کیونکہ اس سے قبل سائنٹیفک چیمبرز میں ہوا کا دباؤ کم کرکے پیٹر دیکھ چکے تھے کہ ان کا ڈرون اس ماحول میں ٹھیک کام نہیں کرپارہا۔

تیاری کے دوران، پیٹر کو جب معلوم ہوا کہ کے ٹو کا بیس کیمپ ڈرون کا برمودا ٹرائنگل ہے تو انہوں نے ہر چیز ڈبل رکھنے کا فیصلہ کیا۔

فوٹوگرافر کو کم درجہ حرارت اور ہوا کے کم دباؤ کا بھی خطرہ تھا —فوٹو: پیٹر جان جوراکا
فوٹوگرافر کو کم درجہ حرارت اور ہوا کے کم دباؤ کا بھی خطرہ تھا —فوٹو: پیٹر جان جوراکا

اس طرح پیٹر اپنے سفر پر 75 کلو وزنی آلات لے کر روانہ ہوئے جن میں 2 ڈیجیٹل سنگل لینس ریفلکس کیمرے، 2 ٹیبلٹس، 2 کمپیوٹرز اور 2 ڈرونز شامل تھے۔

یہ بے دھیانی میں کیا گیا ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا کیونکہ پیٹر کا ایک ڈرون اپنی پہلی ٹیسٹ پرواز کے دوران ہی تباہ ہوگیا۔

فوٹوگرافر 75 کلو وزنی سامان کے ساتھ پہاڑ کے سفر پر روانہ ہوئے —فوٹو: پیٹر جان جوراکا
فوٹوگرافر 75 کلو وزنی سامان کے ساتھ پہاڑ کے سفر پر روانہ ہوئے —فوٹو: پیٹر جان جوراکا

30 جون 2016 کے روز، کے ٹو کے کیمپ پر پیٹر نے سطح سمندر سے 6 ہزار 334 میٹر بلندی پر منجمد کردینے والے موسم میں 3 منٹ کے لیے اپنا ڈرون ہوا میں اڑایا، جو ورلڈ ریکارڈ جیسا ہی ہے۔

ابھی گنیز بک آگ ورلڈ ریکارڈ کی جانب سے پیٹر کے اس معرکے کی توثیق باقی ہے، پیٹر کہتے ہیں کہ اس قدر اونچائی پر فوٹو گرافی کا ریکارڈ توڑنے کا ممکنہ خیال ہی انہیں اتنا پرجوش کردیتا ہے کہ وہ رات میں سو نہیں پاتے۔

فوٹوگرافر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی خوبصورتی کو کبھی نہیں بھول سکتے—فوٹو: پیٹر جان جوراکا
فوٹوگرافر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی خوبصورتی کو کبھی نہیں بھول سکتے—فوٹو: پیٹر جان جوراکا

فوٹوگرافر کا مزید کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی خوبصورتی اور پاکستانی لوگوں کو کبھی نہیں فراموش کر پائیں گے۔

پیٹر کا پہلا ڈرون ٹیسٹ پرواز میں تباہ ہوگیا —فوٹو: پیٹر جان جوراکا
پیٹر کا پہلا ڈرون ٹیسٹ پرواز میں تباہ ہوگیا —فوٹو: پیٹر جان جوراکا

پیٹر کے خیال سے ’ایلپس اور افریقی پہاڑیوں کے مقابلے میں قراقرم کی کہانی یکسر جدا ہے، یہ بہت عظیم اور درشت سہی مگر خوبصورت ہے، یہ لوگوں کے لیے جنت ہے‘۔


یہ آرٹیکل ڈان، سنڈے میگزین میں 27 نومبر 2016 کو شائع ہوا۔