بلڈ گروپس مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

02 دسمبر 2016
— کریٹیو کامنز فوٹو
— کریٹیو کامنز فوٹو

ہماری دنیا میں انسانوں کے مختلف بلڈ گروپس ہوتے ہیں، یعنی خون کے بنیادی عناصر تو یکساں ہوتے ہیں مگر اس میں کچھ مختلف چیزیں انہیں چار گروپس میں تقسیم کرتی ہیں۔

سائنسدان ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر انسانوں کے اتنے بلڈ گروپس کیوں ہیں مگر ان مختلف گروپس کا خیال نہ رکھنا جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کے خیال میں یہ بلڈ گروپس لاکھوں برسوں سے انسانی جسم کا حصہ ہیں مگر ڈاکٹرز کو اس بارے میں 116 سال پہلے علم ہوا تھا۔

1900 سے قبل لتعداد افراد کی ہلاکت اس وجہ سے ہوجاتی تھی کیونکہ ان کے جسم میں دوسرے گروپ کا خون چڑھا دیا جاتا تھا۔

مگر کیا چیز ہے جو کسی مخصوص بلڈ گروپ کو کسی کے لیے جان لیوا اور کسی کے لیے حیات بخش ثابت ہوتی ہے؟

ان چاروں بلڈ گروپس کو جو چیز ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے وہ اینٹی جنز ہے یعنی ایسے پروٹین یا کاربوہائیڈریٹ جو خون میں شامل ہوکر اینٹی باڈیز بنانے کا عمل تیز کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر اے بلڈ گروپ میں اینٹی جنز بھی اے ہوتے ہیں جبکہ بی بلڈ گروپ میں ٹائپ بی اینٹی جنز ہوتے ہیں۔

اگر اے اینٹی جنز اور بی اینٹی جنز کو ملایا جائے تو وہ جسم کے اندر ایک جنگ شروع کردیتے ہیں۔

ہمارے جسموں کے اندر بلڈ پلازما میں ایسے اینٹی باڈیز ہوتے ہیں جو کسی بھی انجان چیز کی روک تھام کرتے ہیں بشمول ان اینٹی جنز کے جو ہمارے بلڈ گروپ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

جب جسم میں دوسرے گروپ کے اینٹی جنز داخل ہوتے ہیں تو یہ اینٹی باڈیز ان پر حملہ آور ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں خون میں خرابی آنے لگتی ہے یعنی خون کی شریانیں بلاک ہوسکتی ہیں، دوران خون تھمنے کی وجہ سے موت کا خطرہ ہوتا ہے۔

کسی دوسرے گروپ کے خون کی چند ملی میٹر مقدار ہی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے یعنی اپنے بلڈ گروپ سے واقفیت بہت ضروری ہوتی ہے۔

ویسے تو سائنسدان خون کے گروپس کو 35 کی تعداد میں تقسیم کرتے ہیں (یعنی انسانوں اور جانوروں کے گروپس) مگر دنیا کی نوے فیصد انسانی آبادی 8 بلڈ گروپس کی حامل ہوتی ہے یعنی اے پازیٹو، اے نیگیٹو، بی پازیٹو، بی نیگیٹو، او پازیٹو، او نیگیٹو، اے بی پازیٹو، اے بی نیگیٹو۔

اے پازیٹو اور او پازیٹو ایسے بلڈ گروپس ہیں جو مجموعی طور پر 65 فیصد تمام انسانی بلڈ گروپس پر مشتمل ہیں جبکہ اے بی نیگیٹو سب سے زیادہ نایاب ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں