گزشتہ ماہ میں نے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر ایک اجنبی عمر رسیدہ شخص، جو شاید تقریب کے منتظمین میں سے تھے، میرے پاس آئے اور تقریب میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

میں نے سوچا کہ منتظم ہونے کے ناطے وہ مہمانوں سے شائستگی کا اظہار کر رہے ہیں سو میں نے بھی بدلے میں ان کا شکریہ ادا کیا۔

اس کے بعد انہوں نے کچھ ایسا کہا جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کر دیا۔

اس سے پہلے کہ میں اپنی تحریر کو آگے بڑھاؤں، میں آپ کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ میں بچپن سے چل نہیں سکتا اور وہیل چیئر یا واکر کا استعمال کرتا ہوں۔ میری تحریر کے نکتے کو سمجھنے کے لیے آپ کے لیے یہ بات جاننی بہت ضروری ہے۔

جب میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ، "نہیں بیٹا آپ نے اتنی تکلیف اٹھا کر آنے کی ہمت کی، بہت خوشی ہوئی۔ آپ کی آمد کا بہت شکریہ۔"

یہاں دو لفظ اہمیت کے حامل ہیں: تکلیف اور ہمت۔

جو صاحب میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ کیا تقریب میں شرکت کے لیے مجھے تکلیف اٹھانی پڑی بھی یا نہیں، بلکہ انہوں نے محض خود سے ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ میں بڑی دشواری کے ساتھ تقریب میں پہنچا ہوں۔

میرا سوال ہے، کیوں؟

میں مانتا ہوں کہ ان کا ارادہ قطعی طور پر برا نہیں تھا، بلکہ یقینی طور پر انہوں نے خلوصِ دل سے میری تعریف اور عزت کرنا چاہی۔

مجھے ایسے الفاظ کہنے والے وہ پہلے شخص نہیں تھے۔ میری اب تک کی تمام زندگی میں کئی لوگ میرے پاس آئے اور ایسے ہی الفاظ ادا کیے۔ میں ان کے خلوصِ نیت کو تسلیم کرتا ہوں۔

مگر پھر بھی کچھ ایسے نفیس لوگ، جو آپ کے لیے خلوص نیت رکھتے ہیں اور ان کا مقصد دل دکھانا نہیں ہوتا، یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کا طرزِ عمل نہ صرف یہ کہ غلط ہے، بلکہ بے حسی بھی ہے۔

اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے: جیسے اپنی ٹانگوں پر چلنے والے شخص کے لیے چلنا عام سی چیز ہے اسی طرح وہیل چیئر پر بیٹھے شخص کے لیے وہیل چیئر میں رہنا ایک عام سی بات ہے۔

بے شک ہمیں باریکیوں کا خیال بھی کرنا پڑتا ہے: کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے یہ انتہائی دردناک اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، مگر پھر بھی وہ نہیں چاہیں گے کہ دیگر لوگ ان کے ساتھ حد سے زیادہ ہمدردی اور سرپرستانہ رویہ اختیار کریں۔

جیسا کہ غالب نے کہا ہے،

رنج سے خو گر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

غالب کے یہ الفاظ وہیل چیئر استعمال کر رہے ہم جیسے زیادہ تر لوگوں پر صادق آتے ہیں۔ ہم جو کام روزانہ بار بار کرتے کرتے ہیں، شروع میں وہ ہمارے لیے دشوار بھلے ہوں، مگر پھر آسان ہوجاتے ہیں اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب ان کاموں میں ہمیں ذرہ برابر دشواری نہیں ہوتی۔

یہ باتیں میرے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتی ہیں جو میں ہمیشہ سے ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو مجھے "متاثر کن" پاتے ہیں: مجھ میں یا میری طرح وہ لوگ جو وہیل چیئر پر بیٹھ کر روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، ایسی کیا متاثر کن بات ہے؟

شاندار تصاویر کھینچنے پر مبین انصاری کی تعریف کرنے کا مقصد سمجھ میں آتا ہے، مگر اس بات کا کیا مطلب ہوا کہ ان کی تعریف اس لیے کی جائے کہ وہ "سماعت سے محرومی کے باوجود ایک زبردست فوٹوگرافر ہیں؟"

یہاں میرا مطلب یہ نہیں کہ ان کی معذوری نے ان کی زندگی پر اثرات مرتب نہیں کیے۔ اس بات سے انکار کرنا درست نہیں ہوگا کیون کہ میری اپنی معذوری نے خود مجھ پر اثرات مرتب کیے۔

اور میرا یقین کریں، میں روز صبح لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے نہیں اٹھتا۔

میں روز صبح کلاس لینے، دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، کتاب پڑھنے اور ہر وہ سرگرمی جو یونیورسٹی کا ایک ’عام‘ طالب علم کرتا ہے، کرنے کے لیے نیند سے جاگتا ہوں۔

ایک بار پھر بات کرتے ہیں نیتوں کی۔ میں یہ بات پختہ طور پر مانتا ہوں کہ کوئی بھی شخص وہیل چیئر پر بیٹھے کسی شخص سے ہمدردی جتاتے وقت اسے ہرگز مایوس کرنا نہیں چاہتا۔

ان کا مقصد ہمیشہ ہمیں بہتر محسوس کروانا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ واقعی ہمیں بہتر محسوس کروانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے:

ہمارے ساتھ مساوی برتاؤ کریں۔ اور کچھ نہیں۔

چلیئے آپ کا کام اور بھی آسان بنائے دیتے ہیں۔ یہاں چند عوامل کی ایک مختصر سی فہرست ہے جس پر آپ عمل پیرا ہو سکتے ہیں:

  • خود کو معذوری کے سماجی ماڈل اور ایبل ازم (معذوروں کے حق میں امتیازی سلوک برتنے کے عمل کے بارے میں علم) کی تعلیم سے آراستہ کریں۔ آپ اس کی شروعات ان مضامین کی سریز کو پڑھ کر کر سکتے ہیں۔

  • وہیل چیئر پر بیٹھے کسی شخص کو خود سے الگ تصور نہ کریں۔

  • معذور لوگوں کی خواہ مخواہ کی ستائش کرنا چھوڑ دیں اور انہیں اپنے لیے متاثرکن شخصیت نہ بنائیں۔

  • بعض اوقات وہیل چیئر پر بیٹھے شخص کو مدد درکار ہو سکتی ہے مگر ان کی مرضی کے بغیر ان کی مدد کرنا شروع نہ کر دیں۔ اگر آپ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس اندازمیں کریں کہ انہیں یہ نہ لگے کہ آپ ان سے ہمدردی جتا رہے ہیں۔ اگر وہ آپ کی مدد لینے سے انکار کر دیں تو ان کی مدد کرنے پر بضد نہ ہوں۔ اگر انہیں مدد درکار ہوگی تو وہ آپ کو کہہ دیں گے۔

  • خود کو اور اپنے ماحول کو جتنا ہوسکے خصوصی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

3 دسمبر، معذوروں کا عالمی دن ہے۔ ہرچند کہ میں اس دن کے منانے کے خیال پر تحفظات رکھتا ہوں، مگر یہ موقع معذوری نامی چیز کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہرشخص کے مساوی حقوق ہونے چاہئیں، یہ کہنا ایک الگ بات ہے مگر اس بات پر عمل پیرا ہونا اور دوسروں کے لیے ذاتی اندازوں اور گمان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری اور اہم بات ہے۔

یہ کام اتنا آسان نہیں ہے نا؟ ایک اچھا انسان بننا مشکل ہو سکتا ہے؛ اگر یہ سادہ سا کام ہوتا تو اچھے انسان کا امتیاز کیسے پیدا ہوتا۔

تبصرے (5) بند ہیں

Saira ayub Dec 03, 2016 06:12pm
Well done.Disability is just a different living style. It is diversificatin so society accpted it and change enviornment for disabled.
Mohammad Khalid Dec 03, 2016 06:24pm
Excellent Analysis & suggestions, I agreed with you brother Aziz
عبدالحفیظ Dec 03, 2016 07:58pm
آپ نے بہت اچھے انداز میں اپنی بات بیان کی ہے اور ہمیں ایک نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ شکریہ ۔ اِس طرز عمل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں عموما جو لوگ کسی ایسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں وہ خود ہی باقی لوگوں کے ساتھ ایسے رویہ رکھتے ہیں کہ لوگ اُن پر ترس کھائیں اور قابلِ رحم سمجھیں۔ اگر کسی جسمانی معذوری میں مبتلا افراد بھی علم حاصل کریں اور کوئی مناسب پیشہ یا ملازمت اختیار کریں اور ساتھ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کر لیں تو یہ "رحم اور ترس" کی صورتحال سے بچ سکتے ہیں۔
حسن اکبر Dec 03, 2016 09:10pm
میں آپ کا شکر گزار ہوں کیونکہ آپ نے اپنے اس مضمون کے ذریعے میری اصلاح کی ہے۔
Ahmed Dec 04, 2016 01:10am
ap nay bilkul theak kaha ik mazor hony kay naty jis tarha ap nay depiction ki hai mai is say agree krta hon mazor afrad ko help ki nahe apnay jesa smajhny ki zrorat hai