مغلبھیں مزار: صدیوں کے تقدس کا امین

مغلبھیں مزار: صدیوں کے تقدس کا امین

ابوبکر شیخ

زندگی کی خوبصورتی بھی فقط اس وجہ سے ہے کہ یہ تغیر کے عمل سے گذرتی رہتی ہے اور ٹھہرتی نہیں۔ دراصل اگر زندگی کی لازوالیت ہے تو وہ بھی اس لیے کہ یہ گذرے ہوئے پلوں کو چھوڑتی نہیں ہے بلکہ اپنے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔

آپ اگر ننگر ٹھٹھہ سے دریائے سندھ پار کر کے سجاول کے چھوٹے سے شہر میں آئیں تو جنوبی سندھ کی ڈیلٹائی پٹی کا اپنا منفرد رنگ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے، اور اس طرح آپ جب اس شہر سے گزر کر ساحلی پٹی کے آخری چھوٹے سے شہر ’جاتی‘ روانہ ہوتے ہیں تو ان 35 کلومیٹرز کی دوری سات صدیوں تک پھیل سی جاتی ہے۔

تاریخ کی اس راہ گزر کے ایک سرے پر میں کھڑا ہوں اور دوسرا سرا سات صدیوں کے اُن گزرے ہوئے عرصے میں دفن ہے جسے ہم ماضی کے مزار کہتے ہیں۔ گزرے وقت کے دیپک کی روشنی میں ڈھونڈنے کی تلاش کریں تو تاریخ کے اوراق پر کئی تحریریں پڑھنے کو مل جائیں گی۔

جاتی کے پرانے شہر کے شمال میں ایک قدیم درگاہ ہے جسے عرف عام میں ’’مگر بھیں‘‘، ’’مغلبھیں‘‘ اور ’’بھیانی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ درگاہ ’’شیخ سلامت‘‘ نامی بزرگ کی ہے۔

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

ان کے بڑے عربستان سے ہجرت کر کے سندھ آئے اور ’شاہ کپور‘ میں آ کر بسے جو سومروں کی قدیم بستی تھی۔ پھر سومرا سرداروں نے دریائے سندھ کے بدلتے بہاؤ کی وجہ سے مرکزی شہر شاہ کپور (جس کے آثار جاتی سے مشرق شمال میں 12 کلومیٹر پر دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ گونگڑو کے کنارے پر دیکھے جا سکتے ہیں) کو تعمیر کیا۔ (سومرا دور حکومت کا عرصہ 1300 عیسوی سے 1440 عیسوی تک ہے۔)

شیخ سلامت ’مقصود العارفین‘ کتاب کے مصنف تھے، ان کی ولادت 1128 میں شاہ کپور میں ہوئی، مگر لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے وہ شاہ کپور سے اس جگہ (جاتی) میں آ کر رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’گونگڑو‘ کا بہاؤ اس طرف کی اراضی کو آباد کرتا تھا۔ مطالعے کا شوق، شفقت اور صوفیانہ طبیعت کی وجہ سے اس بزرگ کا نام دور دور تک پھیل گیا۔ پانی کا شیریں چشمہ پھوٹے گا تو پیاسے وجود اُس کو ڈھونڈ ہی لیں گے۔

اس حوالے سے محقق رسول بخش تمیمی لکھتے ہیں، ’’شیخ سلامت نے علم کی تشنگی دور کرنے کے لیے دور دراز شہروں کا سفر کیا۔ بغداد شریف میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہو کر مُرید ہوئے اور کچھ برس وہیں بغداد میں رہے، پھر مرشد کی اجازت سے واپس جاتی میں آ کر آستانہ بسایا اور صوفی القادری طریقے سے تبلیغ کی۔‘‘

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

آخری ایام کے متعلق محقق رقم طراز ہیں کہ، ’’روایت ہے کہ ہالار کے بادشاہ ’رائے قنوج‘ کے ظلم و ستم سے تنگ ہو کر کچھ سید خاندانوں نے شیخ سلامت کے ہاں پناہ لی۔ بادشاہ نے ان سے خاندانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا مگر شیخ سلامت نے کہا کہ جو پناہ میں ہے اُس کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس بات پر جنگ ہوئی اور بڑا قتال ہوا۔ جنگ میں شیخ سلامت سمیت ان کا سارا خاندان اور نوے سے زائد مرید شہید ہوئے۔ شیخ سلامت اور ان کے اہل و عیال کو ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔‘‘

اس خطے میں شاید یہ واحد درگاہ ہے جہاں آپ اندر نہیں جا سکتے۔ روشنی کرنے اور لوبان جلانے کے لیے فقط ایک مقرر کردہ آدمی اندر جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں کا گادی نشین بھی اندر نہیں آ سکتا۔

کل جب اس مقرر کردہ شخص کے سانس کی ڈوری ٹوٹے گی تو اس کے خاندان سے کوئی آ کر اس کی جگہ لے گا اور سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا، جبکہ یہاں جتنی بھی رسومات ہیں وہ مقرر خاندانوں کے لوگوں کے سپرد ہیں۔

بہت ساری باتیں تھیں جو میں نے کتابوں میں پڑھی تھیں اور لوگوں سے سُنی ہوئی تھیں کہ مغلبھیں کے اس آستانے پر کچھ رسمیں روز بڑی پابندی سے ہوتی ہیں۔

موسم کیسا بھی ہو، چاہے بارش کی جھڑی ہو یا پارہ جما دینے والی سردی، یہ رسمیں روز ہوتی ہیں اور ان کا یہ سلسلہ صدیوں سے قائم ہے اور خاندان در خاندان لوگ اسے بڑے احترام سے سنبھالتے آئے ہیں۔

درگاہ کے آنگن میں آگ کا الاؤ ہر وقت جلتا رہتا ہے اور نقارے دن کے 24 گھنٹوں میں دو بار بجائے جاتے ہیں: پہلے شام کے وقت اور پھر رات کے دو بجے۔

نقارے بجانے کی جگہ — تصویر ابوبکر شیخ
نقارے بجانے کی جگہ — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ پر دن میں دو بار نقارے بجائے جاتے ہیں — تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ پر دن میں دو بار نقارے بجائے جاتے ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ

دروازے مقررہ وقت یعنی رات دو بجے کُھلتے ہیں اور مغرب کے وقت بند کر دیے جاتے ہیں۔ درگاہ کے اندر دیا جلانے یا اُس میں تیل ڈالنے کی رسم روز شام کے وقت ہوتی ہے۔

درگاہ پر آئے ہوئے مہمانوں کے لیے جاتی شہر کے گھروں سے کھانا لینے کے لیے مقرر خاندان کا آدمی اپنے مقررہ کام پر نکل جاتا ہے۔ خیرات میں جو کھانا ملتا ہے اسے یہاں لا کر پہلے مہمانوں کو کھلایا جاتا ہے، بچ جائے تو بلیوں کو دیا جاتا ہے۔

مغلبھیں کا یہ آستان اُن بلیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے، جسے مقامی لوگ شیخ سلامت کے شیر کہتے ہیں۔ ان کے لیے بھی ایک خادم مقرر ہے جو صبح کو ان بلیوں کے لیے مچھلیاں لینے جاتا ہے۔

مچھلیوں کی دکانوں کے مالک ماہی گیر بڑی خوشی سے اس خادم کو مفت مچھلیاں دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی معتقد اور شہری بلیوں کے لیے دودھ بھی دے جاتے ہیں۔

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

مزار کے آنگن میں موجود قدیم قبریں — تصویر ابوبکر شیخ
مزار کے آنگن میں موجود قدیم قبریں — تصویر ابوبکر شیخ

میں جب جاتی کے چھوٹے شہر میں پہنچا تب گرمیوں کے دن تھے۔ مرکزی راستے پر نئی دکانیں آباد ہو چکی ہیں مگر پرانے بازار اور کچھ گلیوں میں ابھی ماضی بستا ہے۔ یہاں سے مشہور ’سنڈو بندر‘ تو پانچ کلومیٹر جنوب میں تھا مگر کسی زمانے میں یہاں ایک گھاٹ تھا جہاں بڑی اور چھوٹی کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں۔

1931 میں جنرل ایڈورڈ ڈلہائوسی کی سربراہی میں سندھ سروے مشن پر آیا تھا۔ وہ 6 مئی کو یہاں پہنچے تھے۔ وہ رپورٹ میں لکھتے ہیں:

’’مغلبھیں ایک بڑی جگہ ہے۔ یہاں تین ہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں، یہ گونگڑو بہاؤ کے کنارے آباد ہے۔ اس بہاؤ کی چوڑائی 6 سو فٹ اور گہرائی 18 فٹ ہے، یہاں کشتیوں کے ذریعے آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ہم نے اس گھاٹ پر پچیس بڑی اور چار چھوٹی کشتیاں دیکھیں۔

"بڑی کشتیوں میں ڈھائی سو سے تین سو من تک اناج آسکتا ہے۔ چوں کہ یہ ایک گرم خطہ ہے تو یہاں جانوروں میں اونٹ سب سے زیادہ اور ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اگر سندھ پر قبضہ کرنا ہو تو جنوب کی طرف سے مغلبھیں سب سے زیادہ مناسب جگہ ہے۔‘‘

جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ
جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ

جین مندر پر موجود نقش و نگار کا ایک نمونہ — تصویر ابوبکر شیخ
جین مندر پر موجود نقش و نگار کا ایک نمونہ — تصویر ابوبکر شیخ

جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ
جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ

یہ وہی جاتی ہے جہاں اناج، گنے اور تمباکو کی اچھی فصلیں ہوتی تھیں۔ 1929 کے ماہ دسمبر میں یہاں دو روزہ تعلیمی کانفرنس ہوئی اور پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور صلح کے امن معاہدے کی خوشی میں یہاں 19 جولائی 1919 کو ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا۔

پڑھنے کو یہ بھی ملتا ہے کہ 1953 میں اس علاقے کی زرخیزی کو دیکھ کر ٹنڈو محمد خان سے یہاں تک ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ منظور کیا گیا تھا، مگر منصوبہ صرف منظور ہی ہوا، آگے نہ بڑھ سکا۔

میں گلیوں سے گھومتا جین دھرم کے اُس مندر کو دیکھنے گیا جس کی چوٹی مجھے دور سے ہی نظر آ رہی تھی، مگر باہر سے خاردار جھاڑیوں کی ایک دیوار بنی تھی۔

مقامی صحافی زاہد اسحاق سومرو کی بڑی کوششوں کے بعد اندر جانے کا موقع ملا تو وہاں ایک خستہ حال مندر موجود تھا۔ وہاں بسے ایک ہندو خاندان کی وجہ سے اس جینی مندر کو جیون دان مل گیا ہے۔

1888 کی ایک رپورٹ کے مطابق اُس وقت جاتی میں 1706 مسلمان اور 537 غیر مسلم رہتے تھے۔ اُن میں یقیناً جینی بھی رہتے ہوں گے جو یہاں سے کوچ کر گئے مگر مندر کا وجود باقی رہا، اب اس جینی مندر میں کبھی کبھار شیو شنکر کی پوجا ہوتی ہے۔

شام کے وقت جب میں پھر سے مغلبھیں کی درگاہ پر پہنچا تو الاؤ پر نقاروں کو گرمی دی جا رہی تھی تا کہ وہ ایک کھنک کے ساتھ بجیں۔ بلیاں تھیں کہ جن پر شام کی کاہلی غالب تھی، دودھ برتن میں دستیاب تھا مگر کوئی بلی دودھ نہیں پی رہی تھی۔

ایک دو بلیاں اس دودھ کے برتن کے قریب لیٹی تھیں۔ میرے پیروں کی آہٹ سنی تو غنودگی کے عالم میں آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور پھر دھیرے سے بند کردیں۔

مزار پر موجود بلیاں یا چھوٹے شیر — تصویر ابوبکر شیخ
مزار پر موجود بلیاں یا چھوٹے شیر — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پر موجود بلیوں کے دودھ کا برتن — تصویر ابوبکر شیخ
مزار پر موجود بلیوں کے دودھ کا برتن — تصویر ابوبکر شیخ

ایک آدمی عقیدمندوں کو خاک کے ٹکڑے دے رہا ہے — تصویر ابوبکر شیخ
ایک آدمی عقیدمندوں کو خاک کے ٹکڑے دے رہا ہے — تصویر ابوبکر شیخ

اس ساحلی پٹی کے مقامی کچھ عورتیں اور بچے درگاہ کے آگے بیٹھے تھے۔ کچھ اُمیدیں تھیں جن کے پورا ہونے کی اُمید اُن کے چہروں پر جھلک رہی تھی، تو کہیں چند پریشانیاں تھیں جن سے ہر کوئی چھٹکارہ چاہتا۔ پھر درگاہ کے آنگن میں بیٹھا آدمی خاک کا ٹکڑا اُن کو دیتا اور وہ بڑے احترام سے اُس خاک کو اپنے پلوُ میں باندھ لیتیں کہ عقیدت اور ایمان ہی سب کچھ ٹھہرا۔ گھاس تھی کی ہر طرف بچھی تھی جس پر پاؤں پڑتا تو شام کی ٹھنڈک اور گھاس کی نرمی پیروں کے تلووں کو آرام دیتی۔

میں درگاہ کے مشرق میں بنی لکڑی کی اُس مسجد میں گیا جس پر لکڑی پر بڑے خوبصورتی سے نقش و نگاری کا کام کیا گیا ہے۔ اب بار بار رنگ کر کے اُس کی اصل خوبصورتی ان رنگوں کی تہوں کے نیچے کہیں گم ہو گئی ہے۔

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

مگر لکڑی پر یہ نفیس کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں جہاں جہاں بھی گیا بلیاں میرے ساتھ ساتھ چلیں۔ کسی نے بتایا کہ یہاں دو سو سے بھی زائد بلیاں ہیں، ان کو کوئی کچھ اس لیے نہیں کہتا کیوں کہ یہ شیخ سلامت عرف مغلبھیں کے ننھے منھے شیر ہیں۔

مغلبھیں کے سالانہ میلے کی رسومات کے متعلق جب میں نے زاہد اسحاق سے پوچھا تو جواب آیا ''یہاں کی روزانہ کی رسومات دیکھ کر آپ کو جس طرح کو حیرانی ہوئی ویسے سالانہ میلہ بھی ایسی حیرت انگیز رسموں کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔ درگاہ کو دودھ سے نہلایا جاتا ہے، پھر سفید رنگ سے درگاہ کو آراستہ کیا جاتا ہے۔ درگاہ کے آنگن میں نئی گھاس بچھائی جاتی ہے، نقاروں کے ساتھ سارے شہر میں جلوس نکلتا ہے اور وہ چادریں دھوئی جاتی ہیں جو تمام برس مُرید اور معتقدین درگاہوں پر چڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد، ساحلی پٹی کے ماہی گیر ہاتھوں سے بنی کشتیوں کا ایک جلوس نکالتے ہیں اور ناچتے گاتے درگاہ پر آتے ہیں۔ ان تمام رسومات میں ایک تقدس اور احترام شامل رہتا ہے۔ جو آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔‘‘

مزار کے داخلی راستے پر موجود ایک بڑا گھنٹہ — تصویر ابوبکر شیخ
مزار کے داخلی راستے پر موجود ایک بڑا گھنٹہ — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پر موجود ایک عقیدمند خاتون — تصویر ابوبکر شیخ
مزار پر موجود ایک عقیدمند خاتون — تصویر ابوبکر شیخ

زاہد اسحاق کی بات ابھی جاری تھی کہ اتنے میں نقارے پر چوٹ پڑی۔ خاموشی اور گہری ہو گئی۔ نقارہ مسلسل بج رہا تھا۔ یہ کتنی صحیح بات ہے کہ، جن عوامل میں احترام اور تقدس شامل نہ ہو، وقت اُن کو دوام نہیں بخشتا۔ احترام اور تقدس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری اُن عوامل سے جذباتی وابستگی ہو تب ہی جا کر وہ ہماری ثقافت کا جُز بنتے ہیں۔

نقارے بجنا بند ہوئے۔ مغرب کی اذان ہونے لگی۔ مہمانوں کے لیے گھروں سے کھانا لینے کے کام پر مقرر آدمی جا چکا تھا۔ جب ایک آدھ گھنٹے میں وہ واپس آجائے گا، تو درگاہ کے مرکزی راستے کی ابتدا میں لگے ایک بڑے گھنٹے کو بجائے گا۔

گھنٹے کی ترنگ جیسے ہی پھیلے گی، ویسے ہی وہاں آئے مہمانوں کو اطلاع ہوجائے گی کہ ان کے لیے کھانا آ چکا ہے، ساتھ میں بلیاں بھی اپنے کان کھڑی کریں گی اور پھر رات کے دو بجے نقاروں پر پھر چوٹ پڑے گی اور صدیوں کی یہ رسومات ایک نئے دن میں داخل ہو جائیں گی۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔