کراچی: شہر کے مختلف علاقوں سے حاصل کیے جانے والے مرغی کے گوشت میں آرسینک (سنکھیا) کی بھاری مقدار میں موجودگی سامنے آئی ہے۔

مرغی کی گوشت میں سیسے کا موجود ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شہر کی فضا تاحال 2001 میں ختم کیے جانے والے سیسہ ملے پٹرول کے نقصان دہ اثرات سے پاک نہیں ہوپائی اور اب بھی کھانے پینے کی اشیا میں سیسے کی موجودگی کی بڑی وجہ سیسہ ملے پٹرول کا استعمال ہے۔

یہ اہم معلومات آغا خان یونیورسٹی میں منعقدہ سمینار میں پیش کی جانے والی تین سالہ تحقیق میں سامنے آئی۔

’بھاری دھاتیں، غذا کا تحفظ اور بچوں کی نشونما‘ کے نام سے ہونے والے اس سمینار کا انعقاد آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کی جانب سے کیا گیا تھا، جبکہ تحقیق میں شعبے کو جاپان کی جچی میڈیکل یونیورسٹی کی معاونت حاصل تھی۔

تحقیق میں پاکستان اور جاپان کے پیدائشی بچوں، شیرخوار بچوں(1 سے 3 سال کی عمر) اور حاملہ خواتین کو متاثر کرنے والی سیسے اور آرسینک کی اہم وجوہات کو سامنے لایا گیا، پاکستان میں اس حوالے سے جن مقامات پر تحقیق کی گئی ان میں کراچی اور گمبٹ (خیرپور) شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبدالغنی کا اپنی پریزنٹیشن میں بتانا تھا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے سیسے اور آرسینک کی وہ مقدار جو انسان کھانے کے ہمراہ برداشت کرسکتا ہے (پی ٹی ڈبلیو آئی) وہ 25 مائیکروگرام فی ایک کلو گرام ہے، ڈاکٹر عبدالغنی کے مطابق یہ محفوظ حد 2011 میں مقرر کی گئی تھی اور اس کے بعد سے اب تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ کھانے پینے کی اشیا میں سیسے اور سنکھیا کی کوئی محفوظ حد نہیں اور بہتر یہ ہے کہ کھانا ان کیمکلز سے مکمل پاک ہو‘۔

یہ بھی پڑھیں: 80 فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور

ڈاکٹر عبدالغنی کا بتانا تھا کہ مختلف اقسام کے برتنوں میں پکائے گئے آلو اور دالوں کی نسبت، پولٹری مرغی کے گوشت میں موجود آرسینک کی مقدار 15 گنا زیادہ پائی گئی (تقریباً 41 سے 47 نینو گرام فی گرام)، انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ مرغیوں کو دی جانے والی خوراک اور ویکسینز میں موجود آرسینک کی مقدار ہی مرغی کی گوشت کو نقصان دہ کرنے کی وجہ ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا آرسینک سے آلودہ مرغی کا گوشت استعمال کرنا انسانی صحت کے لیے محفوظ ہے، ڈاکٹر عبد الغنی کا کہنا تھا کہ چونکہ ملک میں بچوں کی 40 فیصد آبادی غذائی کمی کا شکار ہے عوام کے لیے مرغی کا گوشت پروٹین حاصل کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہے، آرسینک کے نقصانات سے بچنے کا حل یہی ہے کہ مرغی کا استعمال کم کیا جائے، پولٹری فارمز کی نگرانی کی جائے اور مرغی کے گوشت کی فروخت پر بھی نظر رکھی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ، نقصان صرف ایک دفعہ کے استعمال سے نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی کھانے کے بار بار استعمال سے دھاتوں کی تھوڑی تھوڑی مقدار جسم میں جمع ہوجاتی ہے۔

تحقیق کے بنیادی محقق ڈاکٹر ظفر فاطمی کے مطابق، حاملہ خواتین اور پیدائشی بچوں کے سیسے سے متاثر ہونے کی وجہ غذا اور گھر میں موجود گرد ہے جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے۔

پانی اور سرمے کا استعمال سیسے کی موجودگی کی اہم وجوہات میں شامل نہیں۔

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ہماری فضا سے لے کر غذا تک میں ان دھاتوں کی وہی قسم موجود ہے جو پٹرول میں موجود ہوتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں پٹرول سے ماحول میں داخل ہونے والے سیسے کے اثرات سے ماحول اب تک متاثر ہے جبکہ اس وقت پٹرول میں موجود سیسے کی سطح طے شدہ حد کے مطابق ہے۔

ماہرین کے مطابق، سیسہ ملے پٹرول کے منفی اثرات سے بچاؤ کا کوئی آسان راستہ موجود نہیں اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی زائل ہوں گے۔

انسانی جسم پر سیسے اور آرسینک کے نقصان دہ اثرات واضح کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں کیمکلز صحت عامہ کے لیے خطرے کی اہم وجہ ہیں کیونکہ یہ دونوں ہی کیمکلز خطرناک اثرات رکھتے ہیں اور دماغ کے خلیات کو نقصان پہنچانے کی وجہ بھی بن سکتے ہیں، بالخصوص بچے اس کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

تحقیق میں شامل خواتین اور بچوں کے خون کے نمونوں میں بھی سیسے کی تعداد 5 مائیکرو گرام فی ڈیسی لیٹر سے کہیں زیادہ تھی، واضح رہے کہ 5 مائیکروگرام فی ڈیسی لیٹر کی حد کو بیماریوں کی روک تھام اور بچاؤ کے امریکی سینٹر(سی ڈی سی) کی جانب سے ریفرنس لیول قائم کیا گیا ہے۔

تحقیق میں سامنے آنے والی معلومات بتاتے ہوئے ڈاکٹر عنبرین ساہیٹو کا کہنا تھا کہ 60 فیصد نوزائیدہ اور تقریباً 90 فیصد بچوں کے خون میں سیسے کی مقدار (سی ڈی سی) کی مقررہ حد سے زائد ہے، جو ان کی آگے زندگی میں ممکنہ خطرے کا سبب ہے۔

ڈاکٹر عنبرین کے مطابق، 35 فیصد دیہی آبادی میں بھی آرسینک کی موجودگی ڈبلیو ایچ او کی مقررہ حد 10 مائیکروگرام سے زیادہ ہے۔

جانور اور جانوروں سے حاصل ہونے والی مصنوعات جیسے گوشت، دودھ، اور دودھ سے بنی دیگر چیزوں کے استعمال سے بھی خون میں موجود سیسے کی مقدار نقصان دہ لیول میں سامنے آئی جبکہ روزانہ چاول کا استعمال کرنے والی خواتین کے خون میں بھی سیسے کی مقدار زیادہ پائی گئی۔

ماہرین کے مطابق، چند آسان گھریلو سرگرمیوں میں ردوبدل سے بھی سیسے سے بچاؤ ممکن ہے، مثال کے طور پر اشیا کو گیلے کپڑے سے پونچھنے کے بعد ہاتھوں کی مکمل صفائی کو یقینی بنایا جائے۔

اس موقع پر کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر اسد سعید، پاکستان اسٹیڈرڈز کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی نمائندہ سیما اشرف اور سندھ ماحولیاتی تحفظ کے ادارے سے تعلق رکھنے والے ایس ایم یحییٰ ننے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔


یہ خبر 6 دسمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں