اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومت کو فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کوئی عملی اقدام اٹھانے سے قبل ایوان کی سفارشات کو حتمی شکل دیئے جانے تک انتظار کرنے کی تجویز دے دی۔

یہ تجویز انہوں نے پورے ایوان کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران اس وقت دی، جب مشیر خارجہ اور فاٹا اصلاحات کے حوالے سے حکومتی کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وہ اپنی رپورٹ میں سینیٹرز کی تقاریر کو شامل کریں گے، جبکہ یہ رپورٹ وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے جلد پیش کی جائے گی۔

اس موقع پر رضا ربانی نے کہا کہ اراکین کی جانب سے کی گئی تقاریر کو ایوان کی سفارشات کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پورے ایوان کی کمیٹی کی جانب سے سفارشات ابھی تیار کی جانی ہیں اور سینیٹ سے ان کی منظوری کے بعد ہی انہیں حتمی تصور کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کیلئے سفارشات

قبل ازیں فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کئی اراکین نے بات کی اور حکومتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا، جو 27 ستمبر کو ایوان میں پیش کی گئی تھی۔

پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی سینیٹرز کی جانب سے ایک تحریک کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی، تاکہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور وہاں کے عوام کے قانونی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی، انتظامی اور دیگر اقدامات پر غور کیا جاسکے۔

حکومتی رپورٹ پر بحث کے دوران اراکین فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے تقسیم دکھائی دیئے، جس کی حکومتی کمیٹی نے سفارش کی تھی۔

فاٹا کے سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹس جرگہ سسٹم کا مبینہ طور پر غلط استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ فاٹا کے لیے جاری کیے جانے والے فنڈز ان علاقوں میں خرچ نہیں کیے گئے، یہاں تک کہ کیری لوگر بل کے تحت حاصل ہونے والے فنڈز بھی مخلصانہ طور پر خرچ نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: فاٹا کے خیبرپختونخوا میں شمولیت کیلئے 5 سال درکار

انہوں نے فاٹا کے عوام کے لیے نوکریوں میں کوٹہ مختص کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

سینیٹر اورنگزیب خان نے فاٹا میں اصلاحات پر عملدرآمد سے قبل نئی مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے قبائلی علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کمی پر اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا۔

سینیٹر تاج محمد آفریدی کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی میں تجویز کردہ اصلاحات سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگا، کیونکہ فاٹا کے عوام ان اصلاحات سے مایوس ہیں۔

سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا کے زیادہ تر لوگ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر الیاس بلور کا کہنا تھا کہ اصلاحاتی عمل کے دوران مقامی ثقافت اور روایات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز دی۔

مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ فاٹا کے عوام نے ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں اور علاقے کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے ہر صورت منسلک کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ’اسٹیبلشمنٹ، فاٹا اصلاحات میں تاخیر کی ذمہ دار‘

سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ حکومت نے فاٹا کو قومی ترقی کے دھارے میں لانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں، جبکہ ملک میں مردم شماری کا آغاز فاٹا سے ہونا چاہیے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حافظ حمداللہ نے دعویٰ کیا کہ 8 قبائلی ایجنسیوں میں سے 5 حکومتی کمیٹی کے تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے کسی ایک رکن کا تعلق بھی فاٹا سے نہیں تھا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹرز فاٹا کے آئینی، قانونی، تاریخی اور انتظامی پہلوؤں پر بحث کرچکے ہیں۔

انہوں نے سینیٹرز سے کہا کہ وہ یہ ذہن نشین رکھیں کہ فاٹا سیکریٹریٹ اور وزارت سیفران کے حکام کے فاٹا کے موجودہ نظام میں ذاتی مفادات پِنہاں ہیں اور اربوں روپے کا کالا دھن اس میں شامل ہے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’جب تک یہ ذاتی مفادات ختم نہیں ہوتے، اصلاحات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘


یہ خبر 7 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں