پشاور: پی آئی اے طیارہ حادثے نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے اور انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کی ان سفارشات پر دوبارہ توجہ مبذول کرادی ہے، جن میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے سیفٹی اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ (ایس آئی بی) کو آزاد اور خود مختار بنانے کا کہا گیا تھا۔

فضائی حادثات کی تحقیقات کرنے والا سیفٹی اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ جولائی 2010 میں ایئربلو طیارہ حادثے کے بعد اس وقت زیر بحث آیا، جب پشاور ہائی کورٹ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ماتحت اس کی کارکردگی پر سوال اٹھایا اور بعد ازاں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے بھی حادثے کی تحقیقات کے بعد اپنی سفارشات پیش کیں۔

اکتوبر 2013 میں ہائی کورٹ نے رکن قومی اسمبلی ماروی میمن اور حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں سوار چند مسافروں کے رشتہ داروں کی جانب سے دائر درخواست کو نمٹا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ، 48 افراد جاں بحق

وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو یقین دلایا گیا تھا کہ سیفٹی اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ کو خود مختار بنانے کے لیے مجوزہ قانون کی سمری پہلے ہی وزیر اعظم کو پیش کرنے کے لیے تیار کرلی گئی ہے۔

تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا بل سینیٹ کمیٹی میں اب تک زیر التوا ہے۔

اسی طرح ان قوانین میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جو سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل سے کسی حادثے کے بعد تفتیش کاروں کے تقرر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل عاصم سلیمان نے ڈان کو بتایا کہ ’ایس آئی بی‘ کو خود مختار بنا دیا گیا تھا اور اب وہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ماتحت نہیں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایس آئی بی کو خود مختار بنانے کے لیے قانون میں تبدیلی کردی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: 'حادثے میں انسانی غلطی کا امکان نہیں'

تاہم اس حوالے سے معاملات پر قریبی نظر رکھنے والے ایک ماہر نے ڈان کو بتایا کہ پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اب تک بل منظور نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیفٹی اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ کو سول ایوی ایشن سے آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے ’سوال ایوی ایشن رولز 1994‘ میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔

پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس دوست محمد خان (جو اب سپریم کورٹ کے جج ہیں) کی سربراہی میں بینچ نے نومبر 2012 میں سی اے اے کو، ایس آئی بی کو خود مختار بنانے کے حوالے سے آئی سی اے او کی سفارشات پر جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

نوٹس میں متعلقہ انتظامیہ سے پوچھا گیا تھا کہ ’ایس آئی بی‘ کو کیوں مکمل خود مختار نہیں بنایا جانا چاہیے۔

جنوری 2013 میں عدالت نے وزارت دفاع کو، ایس آئی بی کو خود مختار بنانے کے لیے قانون سازی کی دوبارہ ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جنید جمشید فضائی حادثے میں جاں بحق

حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس نے ’آئی سی اے او‘ کی سفارشات پر عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے اور اس حوالے سے وزیر اعظم کو سمری ارسال کردی گئی ہے۔

سمری میں ’آئی سی اے او‘ کی ہدایات کے مطابق ’ایس آئی بی‘ کو ’ایکسیڈینٹ انویسٹی گیشن کمیشن (اے آئی سی)‘ میں تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

سمری میں کہا گیا تھا کہ ’اے آئی سی‘ بنانے کے لیے ناصرف سول ایوی ایشن رولز 1994 میں تبدیلیوں بلکہ ایک نئے تنظیمی سیٹ اپ کے قیام کی بھی ضرورت ہے۔

تاہم یہ معاملہ اب تک لٹکا ہوا ہے، کیونکہ ’ایس آئی بی‘ کو ’اے آئی سی‘ سے تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی کے معاملے کو اب تک آگے نہیں بڑھایا گیا۔


یہ خبر 8 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں