اسلام آباد: فاٹا اصلاحات کے حوالے سے حکومتی کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں 7 قبائلی ایجنسیوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز دے دی۔

حتمی رپورٹ میں اس حوالے سے ریفرنڈم کرانے کی تجویز پر تنقید بھی کی گئی ہے۔

وزیر سیفران ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبد القادر بلوچ کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے شامل سفارشات وفاقی کابینہ کو پیش کی جائیں گی اور اس معاملے کو ممکنہ طور پر آئندہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’رپورٹ میں دو طرح کے ریگولیٹری اقدامات شامل ہیں، چند انتظامی آرڈرز سے متعلق ہیں جن کے حوالے سے قانونی تبدیلیاں پارلیمنٹ سے منظور ہونی ہیں، جبکہ یہ اقدامات وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد اٹھائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سات قبائلی ایجنسیوں کے عوام فاٹا کو خیبر پختونخوا میں مجوزہ انضمام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، جبکہ ہمیں اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: فاٹا اصلاحات:حکومت کو سینیٹ کی سفارشات تک انتظار کی تجویز

عبد القادر بلوچ نے کہا کہ ’ہم فاٹا میں ریفرنڈم کی تجویز کے خلاف ہیں کیونکہ اگر فاٹا کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ریفرنڈم کرایا گیا تو خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن، جنوبی پنجاب اور کراچی کی جانب سے بھی یہ مطالبات سامنے آئیں گے اور اس طرح ایک پنڈورا باکس کُھل جائے گا۔‘

وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کی جانے والی اس کمیٹی کو فاٹا اصلاحات کے حوالے سے سفارشات تیار کرنے کے لیے تقریباً 8 ماہ لگے۔

فاٹا کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کمیٹی کے سامنے 4 آپشنز رکھے گئے تھے، جن میں سے پہلا آپشن یہ تھا کہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھا جائے، لیکن ساتھ ہی عدالتی اور انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور ترقیاتی سرگرمیوں کو بڑھایا جائے۔

دوسرا آپشن یہ تھا کہ گلگت بلتستان کی طرز پر فاٹا کونسل قائم کی جائے، تیسرا یہ کہ فاٹا کو الگ صوبے کا درجہ دیا جائے، جبکہ چوتھا اور آخری آپشن یہ تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جائے، جس کے مطابق ہر ایجنسی کو الگ ضلع کے درجہ حاصل ہو جبکہ 6 فرنٹیئر ریجنز کو بھی صوبے میں ضم کردیا جائے۔

مزید پڑھیں: فاٹا کے خیبرپختونخوا میں شمولیت کیلئے 5 سال درکار

وزیر سیفران نے کہا کہ ’ہم نے ہر قبائلی ایجنسی میں 2،2 جرگے منعقد کیے، ایک قبائلی عمائدین کے ساتھ اور دوسرا جرگہ صحافیوں، تاجروں، وکلا، طلبا اور ایجنسی کی خواتین کے ساتھ منعقد کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی عمائدین کی بڑی تعداد نے چند اصلاحات کے ساتھ فاٹا کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے کی حمایت کی، جبکہ ساتوں ایجنسیوں میں دوسرے جرگے کے شرکا نے قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کی متفقہ طور پر حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ انضمام اگلے 5 سال کے عرصے میں مکمل ہوگا اور پورے فاٹا کے لیے 10 سالہ ترقیاتی پیکج متعارف کرایا جائے گا۔

یہ رپورٹ اگست میں تیار کرلی گئی تھی لیکن اس میں کئی ترامیم کی ضرورت تھی، اس کا حتمی ورژن جمعرات کو وزیر کی جانب سے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

اس اصلاحاتی کمیٹی میں سرتاج عزیز کے علاوہ، عبد القادر بلوچ، وزیر قانون زاہد حامد، مشیر قومی سلامتی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ، خیبر پختونخوا کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا اور سیفران کے سیکریٹری شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کیلئے سفارشات

کمیٹی میں کسی فاٹا کو رکن کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جسے عبد القادر بلوچ نے ’سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا قدم‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ معلوم ہوا کہ قبائل اور مختلف ایجنسیوں کے عوام ایک دوسرے کو برابر نہیں سمجھتے، اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ اگر فاٹا کے کسی رکن کو شامل کیا گیا تو اندرونی انتشار کی فضا قائم ہوگی اور اس طرح لوگوں کی انا کے باعث کمیٹی کی کارروائی متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔‘

دوسری جانب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے چند روز قبل ہی حکومت کو تجویز دی تھی کہ وہ سینیٹ میں مشاورت مکمل ہونے تک اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہ کرے۔


یہ خبر 9 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Dec 09, 2016 10:05pm
السلام علیکم: کیا بہانہ تراشا ہے :’’قبائل اور مختلف ایجنسیوں کے عوام ایک دوسرے کو برابر نہیں سمجھتے‘‘ اس لیے کمیٹی میں فاٹا سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا، بھئی فاٹا پر حکمرانی ختم کردو، ہماری جان چھوڑو، فاٹا کی خیبر پختونخوا میں شمولیت آخری آپشن تھا مگر اس کو اختیار کیا گیا تاکہ نہ تو فاٹا صوبہ بنے، نہ کراچی، نہ ہزارہ اور نہ ہی سرائیکی صوبہ، تاکہ ان کی نام نہاد حکمرانی چلتی رہے، فاٹا کو الگ صوبہ بنانے سے خلفشار ختم ہوگا۔ خیرخواہ