16 دسمبر وہ دن ہے جو ہمیں پاکستانیوں کی، یا یوں کہیں کہ ملکی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے چند افراد کی خود کو لامحدود نقصان پہنچانے کی قابلیت کی کئی یاد دہانیاں کرواتا ہے۔

ہم سب ہی لوگ دوسروں پر الزامات لگانے اور ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں مشاق ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بھی سانحے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتا، پھر چاہے وہ وہ واقعات و حالات ہوں جنہوں نے 16 دسمبر 1971 کو جنم دیا، یا پھر وہ جو 16 دسمبر 2014 کا باعث بنے، جب پشاور میں ہمارے 100 سے زائد اسکول کے بچوں کو عقیدے کے نام پر قتل کر دیا گیا۔

یہ حقیقت کہ آج 45 سال بعد بھی ہم ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے مشرقی حصے کے مغربی حصے سے الگ ہونے کے سانحے کی وجوہات کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ 45 سال پہلے جانتے تھے، اس بات کی علامت ہے کہ آج تک کسی نے بھی اپنی تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔

مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی انکوائری کے لیے بنائے گئے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو ایک کے بعد ایک آنے والی سویلین، فوجی، اور نیم سویلین حکومتوں نے عام کیوں نہیں کیا، اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

پڑھیے: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'

سانحے کے 30 سالوں بعد سن 2000 میں ملکی تاریخ کے سیاہ ترین باب کی رپورٹ کے چند اقتباسات عوامی سطح پر لانا کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ کون جانتا ہے کہ اگر ملک کو اس رپورٹ کی مزید قابلِ اعتبار اور تفصیلی صورت تک رسائی ہوتی تو یہ ملک بلوچستان، اور پھر 70 کی دہائی میں صوبہءِ سرحد، اور پھر 1980 کی دہائی میں صوبہءِ سندھ اور پھر حال ہی میں بلوچستان میں دوبارہ حاصل ہونے والے زخموں سے خود کو بچا پاتا۔

ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کو بھلا دینے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنے تلخ تجربات سے کچھ بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول میں ذبح کر دیے جانے والے بچوں کے والدین کا مطالبہ کیا ہے؟

وہ سانحے کی عدالتی تحقیقات کا زور و شور سے مطالبہ کر رہے ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم سچ کا سامنا کرنے سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ ایک جائز مطالبے پر بھی سرکار چپ سادھے ہوئے ہے۔ شاید اس خاموشی کے پیچھے یہ خوف موجود ہے کہ چند مقدس گائیں تحقیقات کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔

پھر چند ایسے بھی لوگ ہیں جن کے مطابق کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیوں کہ جب پورا ملک ہی 2014 جیسی دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، تو فول پروف سکیورٹی نہیں ہوسکتی، کیوں کہ دہشتگرد کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی 'آسان ہدف' باآسانی ڈھونڈ لیں گے۔

ایسی دلیل پر میرا جواب واضح ہے: ٹھیک ہے، پر اگر ہم ان سانحات کی کھلی اور شفاف تحقیقات نہیں کریں گے، اپنی غلطیوں اور دہشتگردوں کی حکمتِ عملیوں سے نہیں سیکھیں گے، تو پھر ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی حکمتِ عملی کیسے تشکیل دی جائے گی؟

غلطیوں پر پردے اور مٹی ڈال دینے کی اس پوری تاریخ کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی عیسیٰ کی کوششوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا جنہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر اگست 2016 میں کوئٹہ میں وکلاء کے قتلِ عام کی تحقیقات کیں۔

مزید پڑھیے: سانحہ کوئٹہ انکوائری رپورٹ میں ڈاکٹروں پر بھی تنقید

ستم ظریفی یہ ہے کہ جسٹس عیسیٰ کی رپورٹ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو پہلے سے عوام کا معلوم نہ ہو۔ لیکن پھر بھی کاغذات پر ان ریاستی غلطیوں کو دیکھ کر اچھا لگا جنہوں نے پاکستان کو دہشتگردوں، نفرت پھیلانے والوں اور تقسیم کرنے والوں کے نظریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

اچھا اس لیے لگا کیوں کہ یہ تمام باتیں وہی ہیں جو مثبت سوچ رکھنے والے پاکستانی ایک عرصے سے کہہ رہے تھے۔

اس رپورٹ کے بارے میں مجھے امید ہے کہ تمام خواندہ پاکستانی اسے پڑھیں گے، (جسٹس عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اسی وقت اردو ترجمہ وقت کی کمی کی وجہ سے دستیاب نہیں ہوسکا، مگر انہوں نے جلد از جلد ترجمے کی سفارش کی)۔ یہ رپورٹ نہ صرف ہمارے مرض کی تشخیص ہے، بلکہ علاج بھی تجویز کرتی ہے۔

جہاں یہ میڈیا کے ان حلقوں کے لیے فردِ جرم ہے جو دہشتگردوں کو مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں، جہاں یہ کئی سطحوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی خامیوں پر روشنی ڈالتی ہے، جہاں یہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کو مؤثر طور پر فعال بنانے میں وفاقی وزیرِ داخلہ کی شدید ناکامی کی تفصیل پیش کرتی ہے، تو وہیں یہ فوج کی زیرِ سربراہی چلنے والی بلوچستان فرنٹیئر کور میں کمان اور باہمی رابطوں کی ناکامی پر بھی سوالات اٹھاتی ہے۔

کمیشن، جس نے 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ لکھنے کے لیے 56 دن انتھک محنت کی، کہتا ہے کہ پاکستان کو برداشت اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام قوانین، بشمول انسدادِ دہشتگردی ایکٹ (اے ٹی اے)، تعزیراتِ پاکستان (پی پی سی) اور آئین کی مکمل پاسداری کی جائے۔

جہاں جسٹس عیسیٰ نے رپورٹ میں شدید تنقید کی ہے، تو وہیں وہ بامقصد سفارشات بھی پیش کرتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی کوئی بھی قاری سمجھ جائے گا کہ اگر ان پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، تو یہ نفرت، دہشتگردی، اور عدم برداشت کے خلاف ہماری جنگ کا رخ موڑ سکتی ہیں۔

زیادہ تر جمہوری معاشروں میں وزراء اور حکام کی ناکامیوں پر ایسی تفصیلی رپورٹ سے ضرور ہلچل مچ جاتی اور استعفے شروع ہوجاتے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ کے استعفے کے مطالبے پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں کیوں کہ ان کا اب اپنی جگہ قائم رہنا بلاجواز ہے اور اس کا مزید دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

جانیے: سانحہ کوئٹہ رپورٹ پر بلوچستان حکومت برہم

مگر مجھے شک ہے کہ ایسا ہوگا۔ ہمارے پاس ایسی کوئی روایت نہیں۔ رپورٹ میں ایف سی کی خامیوں کے تذکرے کے باوجود ایف سی کے انسپکٹر جنرل کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے پاس یہ بہانہ ہوسکتا ہے کہ غیر معمولی طور پر فعال سابق آرمی چیف کی موجودگی میں وہ پالیسی معاملات کا فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں تھی۔

شاید اس وسیع تر اور ٹھوس شواہد پر مبنی فردِ جرم کا نشانہ صوبائی پولیس سربراہ بنیں گے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا آیا ہے، فی الوقت وہی ایسی شخصیت ہیں جن پر سارا ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے۔ باہمی الزامات، استعفوں اور برطرفیوں کو چھوڑیں، میرے لیے تو یہ بھی بہت ہے کہ اگر ان سفارشات پر درست انداز میں عمل کر لیا جائے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں