وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار 8 اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے دہشتگرد حملے پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں خود پر اور اپنی وزارت پر کئی گئی تنقید کے جواب دینے کے لیے جب پریس کانفرنس میں آئے، تو ان کا انداز نہایت جارحانہ تھا۔ مگر ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کوئی ٹھوس بات نہیں تھی، بلکہ انہوں نے تو عدالتی کمیشن کی غیر جانبداری پر ہی سوال کھڑے کر دیے۔

عہدے سے استعفی دینا تو دور، وہ تو کوئی ذمہ داری بھی قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ویسے بھی ہمارے سیاسی کلچر میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہ تو کافی حد تک ظاہر ہے کہ لاتعداد رپورٹس کی طرح یہ رپورٹ بھی ہمیشہ کے لیے کسی نہ کسی دفتر کی الماری تک محدود ہو جائے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اس غیر معمولی رپورٹ میں انسداد دہشتگردی کی پالیسی میں موجود خامیوں کی جو نشاندہی کی ہے، اس پر نہ تو کسی کو سزا ملے گی اور نہ ہی ان کو ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے ایک رکنی عدالتی کمیشن کا مقصد اس سانحے کی تحقیقات تھا جس کے نتیجے میں کوئٹہ کے سینیئر وکلا کی ایک پوری نسل کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

8 اگست کا واقعہ حالیہ برسوں میں ہونے والا سب سے بڑا سفاکانہ دہشتگرد حملہ تھا۔ اس سانحے کو علیحدہ نہیں دیکھنا چاہیے کیوں کہ رپورٹ کے مطابق، یہ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اور انسداد دہشتگردی کے قوانین پر منتخب عملدرآمد کی روش ہے جس وجہ سے شدت پسند گروہ ملک میں آزادانہ طور پر متحرک ہیں۔ درحقیقت اس رپورٹ میں ان ہی نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ پہلے ہی معلوم تھے۔

پڑھیے: دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنے کا نسخہ

وزیر داخلہ کو نئے ناموں کے ساتھ متحرک کالعدم تنظیموں پر ہلکا ہاتھ رکھتے اور انتہاپسند مذہبی رہنماؤں کا دفاع کرتے ہوئے آخر کس نہیں دیکھا ہوگا؟ اسی طرح سے قومی ایکشن پلان کی مختلف شقوں پر سست رو پیش رفت، خاص طور پر جن کا تعلق مدارس اصلاحات اور انتہاپسند مذہبی درسگاہوں کی مالی امداد کے خاتمے سے ہے، بھی ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔

اس رپورٹ میں جسٹس عیسیٰ نے ایک ایسا نکتہ بھی اٹھایا ہے جو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ وزارت داخلہ جماعت الاحرار جیسی تنظیموں کو آخر کیوں دہشتگرد تنظیم قرار دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہی، حالانکہ یہ تنظیم 8 اگست کے سانحے سمیت کئی دیگر دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی تھی۔

اس رپورٹ میں ایک حیران کن نکتے کا تعلق وزیر داخلہ کا تین کالعدم تنظیموں (سپاہ صحابہ پاکستان، ملت اسلامیہ اور اہل سنت و الجماعت) کے سربراہ احمد لدھیانوی سے ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر رد عمل سے تھا۔

وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ انہوں نے ان مذہبی رہنما سے ملاقات بحیثیت ممبر دفاع پاکستان کونسل کی تھی نہ کہ کسی کالعدم تنظیم کے سربراہ کے طور پر۔ اس کے علاوہ وہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کا اطلاق ہونے کے باوجود اس تنظیم کو جلسے کی اجازت دینے کا الزام بھی بڑی ہی آسانی کے ساتھ مقامی انتظامیہ کے سر ڈال گئے۔

ملک میں ہونے والے چند بڑے دہشتگرد حملوں کے بعد ان کی منظرنامے سے غیر موجودگی نمایاں تھی، مگر انہوں نے لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز جیسے انتہاپسند مذہبی رہنماؤں کے دفاع کا کوئی موقع بھی ہاتھوں سے جانے نہیں دیا، حتیٰ کہ ہزاروں لوگوں کے قاتل تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد چوہدری نثار کی ان سے ہمدردی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔

کمیشن نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ وزارت داخلہ نے کالعدم تنظیموں کے متعلق ضروری معلومات کا تبادلہ نہیں کیا، جو کہ ملک کی داخلی سیکیورٹی کے ذمہ دار شخص پر ایک سنگین الزام کے برابر ہے۔

پڑھیے: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'

جہاں وفاقی وزیرِ داخلہ ہماری انسداد دہشتگردی اور انسداد انتہاپسندی کے اقدامات میں ہونے والی کئی غلطیوں کی مثال ہیں، تو وہاں ہمیں دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کی ذمہ داریوں کو بھی دھیان میں رکھنا ہوگا۔ یہ تمام ریاستی اداروں کی مشترکہ ناکامی ہے کہ عسکریت پسند کیفر کردار تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔

اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ قلیل عرصے تک خاموشی کے بعد دہشتگرد ایک بار پھر متحرک ہو چکے ہیں اور اب کے بار بڑی سطح کے حملے کر رہے ہیں جن میں معصوم لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو رہی ہے۔ کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر غیر معمولی نوعیت کا حملہ اور خضدار میں مزار پر ہونے والا قتل عام حالیہ بڑی مثالیں ہیں۔

مگر ملک کا سب سے زیادہ سنگین مسئلہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی دہشتگردی اور مذہبی انتہاپسندی ہے۔ انتہاپسندی کے ماخذ سے نمٹنے کے لیے شاید ہی کوئی سنجیدہ کارکردگی دیکھنے کو ملے۔ حکومت ہر حملے کے بعد جاگتی ہے اور چند دن بعد پھر سو جاتی ہے۔ 8 اگست کے حملے کے بعد قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے مشیر قومی سلامتی کے ماتحت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، مگر تب سے لے کر ابھی تک اس کمیٹی کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔

یہ سول اور فوجی قیادتوں پر مشتمل ان ایپکس کمیٹیوں کی بھی ناکامی ہے جو 2014 میں پشاور اسکول سانحے کے بعد ہر صوبے میں تشکیل دی گئی تھیں۔ جہاں وفاقی حکومت درست طور پر ذمہ دار ہے، وہاں صوبائی حکومتیں بھی کالعدم انتہاپسند تنظیموں کی سرگرمیوں کو لگام دینے میں ناکام رہی ہیں۔

کچھ اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ بھی اہل سنت والجماعت کے رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں ہے اور یہ تنظیم صوبے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب یقینی طور پر غفلت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کیوں کہ اس ترمیم کے مطابق امن و امان بحال رکھنا صوبوں کا کام ہے۔

جانیے: ضربِ عضب سے حاصل شدہ فوائد کیسے برقرار رہیں گے؟

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جسٹس عیسیٰ نے جن افراد کو ملزم ٹھہرایا ہے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ پی ٹی آئی بھی کر رہی ہے، مگر خیبر پختونخوا میں ان کی اپنی حکومت صوبے میں انتہاپسند مدرسوں کو کروڑوں روپے بانٹتی پھر رہی ہے؛ مثلاً مولانا سمیع الحق کے مدرسے، جو جہاد کے نام پر تشدد کو فروغ دینے کے لیے مشہور ہے، کو 30 کروڑ روپے کی امداد دی گئی۔ ان کی تنظیم کی جانب پی ٹی آئی کے ملے جلے جذبات کافی واضح ہیں۔

اسی طرح حکومت پنجاب پر بھی فرقہ وارانہ تنظیموں کی جانب زیادہ نرمی اختیار کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے۔ جنوبی پنجاب میں سیکیورٹی اداروں کو فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے فری ہینڈ دینے کی اجازت پر اعتراضات نے حکومت پنجاب پر شدید تنقید کو جنم دیا۔ دوسری جانب، کالعدم شدت پسند تنظیموں میں سے بھی کچھ ایسی تنظیمیں ہیں جو سیکیورٹی اداروں کی پسندیدہ ہیں۔ یہ بات اس دعوے کا کھلا مذاق ہے کہ اب ’اچھے' اور ’برے‘ عسکریت پسندوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔

اس لیے صرف ایک شخص کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے کے بجائے ہمارے وجود کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے کی مشترکہ ذمہ داری اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی رپورٹ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اسے سنجیدگی سے لے کر اپنی غلطیوں کو درست کرنا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں