ترکی: نائٹ کلب پر دہشت گرد حملہ، 39افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2017
ترک شہر استنبول میں نائٹ کلب پر حملے کے بعد پولیس نے اطراف کے علاقوں کو آپریشن کیلئے گھیر لیا — فوٹو: رائٹرز
ترک شہر استنبول میں نائٹ کلب پر حملے کے بعد پولیس نے اطراف کے علاقوں کو آپریشن کیلئے گھیر لیا — فوٹو: رائٹرز

انقرہ: ترکی کے اہم ترین شہر استنبول میں سال نو کی تقریبات کے موقع پر ایک نائٹ کلب میں مسلح شخص نے گھس کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم سے کم 39 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان صوئلو کے مطابق استنبول کے نائٹ کلب میں سال نو کے موقع پر کیے جانے والے حملے میں 16 غیر ملکیوں سمیت 39 افراد ہلاک جب کہ 69 افراد زخمی ہوئے، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔

وزیر داخلہ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں سے 5 ترکی بھی شامل ہیں جب کہ مزید ہلاک شدگان کی شناخت کا عمل جاری ہے، کچھ زخمیوں کی حالت بھی تشویش ناک ہے۔

صالح صوئلو نے مزید بتایا کہ کہ حملے کے بعد پولیس نے علاقے میں آپریشن شروع کرکے حملہ آور کی تلاش کا کام شروع کردیا، مگر تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔

ریسکیو کا عملہ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کررہا ہے — فوٹو: اے پی.
ریسکیو کا عملہ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کررہا ہے — فوٹو: اے پی.

اس سے قبل حملے کے فوراْ بعد استنبول کے گورنر نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے۔

گورنر نے نائٹ کلب پر حملہ کرنے والوں سے متعلق بتایا کہ 'دہشت گرد حملہ کرنے والا شخص ایک تھا۔

ترک حکام کا کہنا تھا کہ حملے سے قبل نائٹ کلب میں 700 کے قریب افراد موجود تھے جو سال نو کا جشن منارہے تھے۔

فوری طور پر واقعے کی ذمہ داری کسی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔

مزید پڑھیں: ترکی: خود کش حملے میں 5افراد ہلاک

دوسری جانب فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے ترک ٹی وی 'این ٹی وی' کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا کہ استنبول کے نائٹ کلب میں حملہ کرنے والے مسلح افراد نے سنتا کلاز کا لباس زیب تن کررکھا تھا۔

اس سے قبل برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ترکی کی سرکاری نیو ایجنسی نے حملے میں ملوث افراد کی تعداد دو بتائی تھی۔

ترک میڈیا کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے نائٹ کلب میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کی جس کا سلسلہ تاحال جاری تھا جبکہ مسلح افراد نے کلب میں موجود لوگوں کو یرغمال بنالیا ہے۔

رپورٹس میں کہا گیا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کی بڑی تعداد نے جائے وقوعہ کا رخ کیا جبکہ پولیس اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی بھی اطلاعات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات

ادھر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سی این این ترک کا کہنا ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر استنبول شہر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی اور یہاں 17000 پولیس اہلکار تعینات تھے۔

نائٹ کلب پر حملے کے بعد شہری محفوظ مقام کی جانب جا رہے ہیں — فوٹو: اے پی.
نائٹ کلب پر حملے کے بعد شہری محفوظ مقام کی جانب جا رہے ہیں — فوٹو: اے پی.

خیال رہے کہ گذشتہ سال 2016 میں ترکی کے شہر استنبول اور دارالحکومت انقرہ کو متعدد مرتبہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس میں کم سے کم 180 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، ان حملوں کی ذمہ داری داعش اور کرد علحیدگی پسندوں کی جانب سے قبول کی گئی۔

عالمی رہنماؤں کی مذمت

استنبول کے نائٹ کلب پر حملے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے مذمت کا سلسلہ شروع ہوا، وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے حملے میں انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستانی قوم ترکی کے غم میں برابر کی شریک ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گرد مشترکہ دشمن ہیں، دنیا کو مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہوگا، پاکستان نے بھی دہشت گردی کے باعث بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔

ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ کے مطابق امریکی صدر براک اوباما نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ کو حملے کی تفتیش میں ترک حکام کی مدد کرنے کی ہدایت کی۔

وائٹ ہاؤس ترجمان کے مطابق صدر براک اوباما نے ترکی کی مدد جاری رکھنے کا اعائدہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نارتھ ائٹلانٹک ٹریٹی آرگنائیزیشن (نیٹو) کا اہم اتحادی ہے اور وہاں دہشت گردی کو شکست دینا لازمی ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹال برگ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ استنبول سے 2017 کا المناک آغاز ہوچکا۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف فریڈریکا موغرینی، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک نے بھی نائٹ کلب حملے کی مذمت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں