سی سی ایس کا حالیہ تحریری امتحان دو واضح اعداد و شمار کی وجہ سے غیر معمولی حیثیت کا حامل رہا۔ پہلا، مجموعی طور پر کامیابی کی شرح مایوس کن دو فیصد رہی، اور دوسرا، لازمی مضمون انگلش میں ناکامی کی شرح 92 فیصد تک رہی۔

پہلی شرح کو تو خاصی توجہ حاصل ہوئی، جس کے بارے میں تبصرہ نگاروں نے کامیابی کی اس قدر قلیل اور افسوسناک شرح کو ملک میں تعلیم کے ناقص معیار سے تعبیر کیا۔

دوسری اہم شرح پر سنجیدہ تجزیے کے بغیر صرف سرسری گفتگو ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شرح کو کھنگالنے سے کئی چیزیں معلوم ہو سکتی ہیں۔

یہ تو واضح ہے کہ سی ایس ایس کے نتائج ملک میں تعلیم کے گرتے معیار کو ظاہر کرتے ہیں، جس کی طرف ایک عرصے سے تعلیم دان توجہ دلا رہے ہیں۔ دیگر وجوہات کے علاوہ یہ اساتذہ کی تربیت میں سنجیدہ سرمایہ کاری کی عدم موجودگی سے قابل اساتذہ کی مطلوبہ سے کم تعداد میں فراہمی کا ناگزیر نتیجہ بھی ہے۔ ایک سے زائد سرویز نے اسکولنگ نظام میں کمتر معیار کو ظاہر کیا ہے۔

تاہم قلیل مدت میں تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی تعلیمی نظام میں نصاب، تدریسی قابلیت اور سوال پوچھنے کی حوصلہ افزائی انتہائی اہم حصے ہوتے ہیں۔ ایک یا دو تبدیلیاں نہیں بلکہ تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے ان تمام حصوں میں تبدیلی لانا ضروری ہوتا ہے۔ ملک میں موجود قوتوں کا توازن دیکھیں تو عنقریب ہونے والے سی ایس ایس امتحانوں میں کسی خاطر خواہ تبدیلی کی بہت کم ہی امید کی جاسکتی ہے۔

پڑھیے: کیا سی ایس ایس صرف 'تابعداری' کا امتحان ہے؟

اس حوالے سے سی ایس ایس امتحان کی فطرت خود بھی ایک ٖغیر دریافت شدہ حصہ ہی ہے۔ ابھی تک یہ بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ امتحان قابلیت اور ذہانت کا امتحان ہے، یا پھر اطاعت اور فرمانبردار رویے کا۔ اگر اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ہے تو پھر کامیابی کی اس قدر کم شرح درخواست گذاروں کے تعلیمی معیار کا درست اشاریہ شاید نہ ہو، کیوں کہ اس صورت میں ممکنہ طور پر بہترین تعلیمی ریکارڈ والے طلبا بھی فیل کیے جا رہے ہوں گے۔

مجھے شک ہے کہ امتحانی نظام میں تعصب کا یہ حصہ سوچا سمجھا ہے۔ لازمی پرچہ جات جن سوالات پر مشتمل ہوتے ہیں اور امتحانات کی تیاری کروانے والے سینٹرز میں جس قسم کی کوچنگ کا رجحان ہوتا ہے، اس سے یہ مفروضہ مستحکم ہوتا ہے کہ یہ امتحان جان بوجھ کر خاص قسم کے امیدواروں کا انتخاب کرتا ہے۔

مگر انگلش میں ناکامی کی 92 فیصد شرح سے متعلق ایک غیر واضح تعصب نظر آتا ہے، جو ایک گہرا سوال کھڑا کر دیتا ہے: کیا انگلش زبان پر بہتر عبور کے بغیر کسی کا قابل یا ذہین ہونا ممکن ہے؟ اگر ہے، تو سی ایس ایس امتحان ایسے کتنے سارے اہل امیدواروں کو خارج کر رہا ہے؟ دھیان رہے کہ انگلش کے لازمی امتحان کے علاوہ زیادہ تر دیگر پرچہ جات بھی انگلش میں ہی حل کرنے ہوتے ہیں۔

پڑھیے: سی ایس ایس امتحانات: 92 فیصد طلبہ ’انگریزی‘ میں فیل

(ذرا اس دگنے بوجھ کا تصور کریں جو کہ بہترین سے بہترین طلبا کو بھی اٹھانا ہوتا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ پر سی ایس ایس انگلش مضمون کے پرچے کے ساتھ ہدایات درج ہیں کہ، ’’امیدواروں کو انگلش میں ایک یا اس سے زائد مضامین تحریر کرنے ہوں گے۔ پرچے میں موضوعات کا ایک وسیع انتخاب دیا جائے گا۔ امیدواروں کو اپنے منتخب موضوع پر جامع اور تحقیقی بنیادوں پر حاصل شدہ معلومات قلمبند کرنی ہوگی۔ امیدواروں کے مضمون میں اظہار خیال، طرز بیان اور انگلش مضمون نویسی کے اسٹائل کے تکنیکی تقاضوں کا جائزہ لیا جائے گا۔’’ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ امتحان دینے والے کو تحقیقی بنیادوں پر اور انگلش مضمون نویسی کے تمام تقاضوں کے مطابق اظہار خیال کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ انگلش کا معاملہ جتنا امتحان دینے والوں کے لیے مبہم ہے اتنا ہی مبہم امتحان منعقد کروانے والوں کے لیے بھی نظر آتا ہے۔)

یہ خود مسلط کردہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کم عرصے میں حل کرنا ممکن نہیں۔ ایسے میں یہ رائے بھی بہت سخت گیر قرار پائے گی کہ امیدواروں کو اپنی مرضی کے مطابق، جس زبان میں وہ آسانی محسوس کرتے ہوں، اس میں مضمون تحریر کرنے کی اجازت ہو، اور انگلش کو غیر لازمی پرچہ قرار دیا جائے۔ مگر یہ رائے کیا واقعی سخت گیر ہے؟

پڑھیے: سی ایس ایس کا فرسودہ امتحانی نظام

چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ پاکستانی سول سرونٹس کے لیے انگلش پر عبور حاصل ہونا بہت ضروری ہے، تو کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ امیدواروں کو امتحان میں کامیابی کے بعد ان کے پہلے سال کے دوران ماہر اساتذہ کی زیر نگرانی انگلش زبان سکھائی جائے؟ ایک ذہین بالغ شخص کے لیے انگلش بطور ایک غیر ملکی زبان سیکھنا آخر کتنا مشکل ہو سکتا ہے؟ کئی پاکستانی طلبا کو یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اسکالر شپس فراہم کی جاتی ہیں وہ بھی تو ان زبانوں کو اس قدر تو سیکھ لیتے ہیں کہ جس کی مدد سے وہاں ڈگریاں حاصل کر سکیں۔ یہ کسی بھی طرح ایک ناممکن کام نہیں ہے۔

اس طرح سلیکشن کا ایک بالکل ہی مختلف اور انقلابی طریقہ ملتا ہے: کہ سب سے بہترین اور اعلیٰ طلبا کو منتخب کیا جائے، اور پھر انہیں خاطر خواہ انگلش سکھا دی جائے، بجائے اس کے کہ ممکنہ طور پر قابل امیدواروں کو صرف اس لیے فیل کر دیا جائے کہ انہیں اسکول میں انگلش ٹھیک سے نہیں پڑھائی گئی۔ اس طرح ملک میں ناقص تعلیمی نظام کے باوجود بھی سی ایس ایس میں کامیاب امیدواروں کی تعداد مزید بڑھنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

پڑھیے: سی ایس ایس میں اصلاحات اور وژن 2025

سلیکشن کے مذکورہ طریقے پر تشویش ظاہر کرنے والوں کو کالونیل انڈیا میں برٹش سول سرونٹس کی سلیکشن کے طرز پر بھی غور کرنا چاہیے، کہ جب سب امیدواروں کا صرف عمومی قابلیت کا امتحان ہوتا تھا اور پھر کامیاب امیدواروں کو کلکتہ میں قائم فورٹ ولیئم کالج میں انتہائی قابل اساتذہ کی زیرِ نگرانی ہندوستانی زبانوں کی تربیت دی جاتی تھی۔ ذرا سوچیے اگر انہیں بھی غیر ملکی زبان کی مہارت کو بنیاد بنا کر منتخب کیا جاتا تو کیا ہوتا۔

پاکستان میں علیل سول سروس کی صحتیابی ممکن ہے۔ مگر کسی بھی مرض کی طرح اس مرض کے علاج کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے درست تشخیص کروائی جائے۔

انگلش میں پڑھیں

لکھاری دی ساؤتھ ایشین آئیڈیا ویب بلاگ چلاتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 جنوری 2017 کو شائع ہوا۔


کیا آپ بھی سی ایس ایس امتحان کے حوالے سے اپنا تجربہ اور اپنی تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں؟ اپنا مضمون ہمیں اسی فارمیٹ میں [email protected] پر ای میل کیجیے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ak Jan 05, 2017 09:00pm
Reality . . . .